مدارس کی رجسٹریشن کا نیا قانون
بن گیا ہے جس پر مولانا فضل الرحمن، جنہیں پارلیمان میں مذہبی حلقوں کی نمائندگی
کا شرف حاصل ہے نے اسے پارلیمان کی
بالادستی کہتے ہوئے مذہبی حلقوں کو مبارکباد دی ہے کہ اس سے ان کی آزادی اور خود
مختاری قائم رہے گی۔ اس معاملہ کے متعلق
پائے جانے والے دیرینہ فرقہ واریت کے تاثرات بارےخدشات میں کوئی کمی آئے گی یا
نہیں بارےحتمی طور پر کچھ کہا نہیں جا سکتا
لیکن محسوس یوں ہو رہا ہے کہ اگر مسالک اور نظریات کی شناخت کے ساتھ
رجسٹریش جاری رہتی ہے تو پھر اس سے فرقہ واریت میں فرق پڑنے کی بجائے اسے مزید تحفظ فراہم
ہوگا۔
عسکریت پسندی، شدت پسندی، مذہبی منافرت پر مبنی
سرگرمیوں میں مدارس کی تعلیم و تربیت کےکردار بارے شکوک شبہات دور کرنے کے لئے قانون میں
ترامیم بھی کی گئی ہیں جن کی رو سے مدارس میں عسکریت پسندی، شدت پسندی یا مذہبی
منافرت بارے مواد شائع کرنے یاپڑھانے پر پابندی لگائی گئی ہے مگر میرے خیال میں تو
پہلے بھی اس طرح کا کوئی خاص
نصاب نہیں پڑھایا جاتا جس میں باقاعدہ عسکریت پسندی، شدت پسندی یا فرقہ واریت کی
تعلیم دی جاتی ہو۔
دراصل اس طرح کی ذہن سازی تو اسلامی تعلیمات کی تشریحات کے
دوران فرضی داستانوں کی بنیاد پر کی جاتی ہے جس کا زیادہ تر احتمال یا انحصار ہی
سینہ بہ سینہ چلنے والی کہانیوں پر ہوتا
ہے جن میں ایک فرقہ دوسرے کو درود شریف کا
منکر تو دوسرا اپنے آپ کو موحد اور دوسروں کو مشرک کہتے ہوئے اپنے پیروکاروں کے
ایمان و یقین کو پختہ کرتے ہوئے ان خدشات کو
ایمان کا حصہ بنا رہا ہوتا ہے اور کوئی اہل بیت کی محبت میں صحابہ کی زندگیوں کے
متعلق خدشات اور کوئی صحابہ کے حب میں ان
خدشات کو کفر کی بنیاد بنا کر فتوے جاری کر رہا ہوتا ہے جس کی بنیاد ایسا اختلافی
لٹریچر ہے جن کے مصنفین کا تعلق مخالف فرقوں سے ہوتا ہے جو نہ تو مدارس میں پڑھایا
جا رہا ہوتا ہے اور نہ ہی ڈھونڈنے پر کبھی ملا ہے۔
حالات و واقعات سےمحسوس ایسے ہوتا ہے کہ اس کی حساسیت کا
ابھی تک ہمیں اندازہ ہی نہیں ہو پا رہا
اور اس کا حل اس وقت تک ممکن نہیں جب تک مذہبی حلقوں کو خود یہ احساس نہ ہو کہ
مذہبی منافرت سے دین کا نقصان ہو رہا ہے جس کے لئے حکومت کو اس حساس مسئلے کے
نقصانات بارےمذہبی حلقوں کو باور کروانا ہوگا جس کی ذمہ داری اسلامی نظریاتی کونسل
کو سونپی جا سکتی ہے۔ اور باقائدہ اصلاحات لا کر ایسا ماحول پیدا کرنا پڑے گا جس
میں علماء کا حکومت پر اعتماد بڑھ کر مذہبی حلقوں اور حکومت کے درمیان عدم اعتماد
کا ماحول ختم ہو اور ساتھ ساتھ تعلیمی نظام کے اندر ہم آہنگی پیدا کی جائے خواہ وہ
دینی مدارس کی تعلیم ہو یا دوسرے سکولوں اور کالجز کی۔ تعلیم میں اس بات پر توجہ
دی جائے کہ ہمارے فارغ التحصیل انسانی
ذرائع کا علم و ہنر کیا ہماری قومی ضروریات سے مطابقت رکھتا ہے یا نہیں۔ ان مدارس
سے فارغ طلباء بھی اس ریاست کے انسانی وسائل ہیں جن کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے
کا کوئی لائحہ عمل ہونا چاہیے تاکہ ان کے لئے بھی مواقعے پیدا ہوں اور جب وہ کسی ذمہ دار عہدے پر ہونگے تو خود
بخودہی ریاست کے ضابطہ اخلاق کے اطلاق کے تحت آ جائیں گے۔
مدارس میں تعلیمات کے حصول کے بعد طلبا فارغ اوقات میں کچھ نہ کچھ تو کریں گے اور کچھ نہیں تو ان کے کسی
نہ کسی مذہبی تنظیم کا حصہ بن کر ان کی
سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا احتمال بڑھ جاتا ہے۔ آج کل سوشل میڈیا کے دور میں زمانے
کے انداز بدلنے سے تبلیغ کا انداز بھی بدل گیا ہے جس کے متعلق سب سے بڑا مسئلہ اس
وقت نگرانی کا ہے جو پہلے ہی حکومت کو
سیاسی سطح پر بھی درپیش ہے۔ سوشل میڈیا پر مذہبی پروگراموں کا رجحان بڑھتا جا رہا
ہے جس سے معاشرے میں ان اختلافی مسائل پر بحث مباحثہ پہلے سے بھی زیادہ ہوتا جا
رہا ہے۔
سوشل میڈیا پر کسی شرعی یا مذہبی نقظے پررائے دینے کے متعلق
قانون بنایا جانا چاہیے جس میں مبلغ کے لئے کسی مذہبی مدرسے سے مستند تعلیم، کسی
ماڈل مدرسے میں درس وتدریس کا تجربہ اور کسی جامع مسجد میں کم از کم دس سال خطابت
کے تجربے کو بنیادی شرائط رکھا جائے تاکہ
سنجیدہ سوچ کے حامل لوگوں کےسوشل میڈیا پر مذہبی معاملات میں رائے دینے کو یقینی
بنایا جا سکے۔ اسی طرح کچھ مساجد کی امامت اور خطابت شروع کر دیتے ہیں جہاں ان کی
سوچ و عمل کامعاشرے کی تشکیل پر سب سے گہرا اثر دیکھنے کو ملتا ہے۔
مساجد کا کردار صرف عبادات تک ہی محدودنہیں بلکہ ان کے اندر دی جانے والی تعلیم و
تربیت کا ہماری مجموعی معاشرتی زندگی سے لے کر ریاست کے انتظامی معاملات تک گہرا
اثر پڑتا ہے۔ آج بھی دیہاتی علاقوں میں بچہ جب بولنے اور چلنے کے قابل ہوتا ہے تو
اس کو مسجد میں بھیجنا شروع کر دیا جاتا ہے جہاں ان کے عقیدوں اور نظریات کی بنیاد
رکھی جاتی ہے۔ اسلام سے محبت اور دین کی اتباع کا درس دیا جاتا ہے جو اللہ اور اس
کے رسول تک پہنچنے کے لئے مولوی کی اتباع سے مشروط ہے اور دین کو سمجھنے کے لئے
ہمارا پورا معاشرہ انہیں مساجد کے اماموں اور خطیبوں کی مرہون منت ہے اور آج بھی
ہمارے ملک میں جوانتہا ءپسندی کی شکار سرگرمیاں جاری ہیں ان کا کسی نہ کسی
طرح سے ایسی ہی تراغیب سے تعلق نکلتا ہے۔
مذہبی منافرت اور انتہاء پسندی کی سرگرمیوں میں باقائدہ
مساجد میں اعلانات کر کے اشتعال انگیزی کی شہادتیں رپورٹ ہوتی ہیں اس لئے افسوس کے
ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان کی ذمہ داری کا دینی ماحول سے جڑے ہونے کے تاثر کو
نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اپنے نظریات اور عقائد کی تقلید میں دوسرے نظریات اور
عقائد کے پیروکاروں پر تشدد اور ان کی جانوں کو لینے کے سلسلے کے ناقابل تردید
شواہد موجود ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ سب علماء کا ہی یہی حال ہے مگر معاشرے کی
عمومی حالت کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے اس معاشرتی تربیت کے متبادل
نظام کی اصلاح کی اشد ضرورت ہے جس کی
بدولت آج ہم اس انتہاء پسندی کی آگ میں
جھلس رہے ہیں۔ اگر ہم اس تسلسل کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو پھر ان تربیت گاہوں کے
انتظامی امور کو مثبت سوچوں کے حامل لوگوں کے
سپرد کئے بغیرکنٹرول نہیں کیا جا سکتا۔
مسجد اللہ کا گھر ہے اور اس کا انتظام ایک اسلامی ریاست کے
اندر حکومت کی ذمہ داریوں میں آتا ہے۔ اگر تمام مساجد کا انتظام حکومت کے لئے ممکن
نہیں تو کم از کم جامع مساجد کے لئے آبادی اور خطیب کے لئے مستند تعلیم یافتہ ہونے
کی شرائط تو رکھی جائیں جس کے اندر ریاست کے انتظامی معاملات میں اس کے مثبت کردار
کے لئے بھی کوئی ریفریش کورسز کا اجرا کیا جائے تاکہ ان کو اپنے ریاست کے اندر
کردار کا اندازہ اور اس کی نزاکت کا احساس تو ہو۔ اسی طرح فتوؤں کے اجراء کے لئے
بھی حکومت کو مدارس سے فارغ مفتیاں کی رجسٹریشن کی کوئی اتھارٹی قائم کرنی چاہیے
جس میں وہ کم از کم ٹیسٹ کے بعد یہ اہلیت حاصل کریں اور کسی ضابطہ اخلاق کی پابندی
بھی ان پر لاگو کی جا سکے۔ اسی طرح نئی مسجد اور مدرسے کی رجسٹریشن سے قبل اس کے
امام یا استاد کے متعلق شرائط کو پورا کرنا لازمی قرار دیا جائے۔
جب ایک سکول یا کالج کے استاد کو ساٹھ یا سو کے قریب طلباء
کو تربیت دینے کے لئے پیشہ ورانہ تعلیم اور تجربے کی ضرورت ہوتی ہے جس میں نفسیات
سے لے کر تربیت کی مختلف تھیوریز پڑھائی جاتی ہیں اور ایک استاد کم از کم دس سال
کے تجربے کے بعد اسٹنٹ پروفیسر بنتا ہے تو جس نے پورے معاشرے کی عمومی تربیت کرنی
ہوتی ہے کیا اس کو کسی پیشہ ورانہ تعلیم و تربیت کی ضرورت نہیں ہوتی اس کے لئے بس علماء
والا حلیہ ہی کافی ہے جس میں داہڑی، ٹوپی اورہاتھ میں تسبیح ہو۔
جب اس کائنات کے خالق نے اپنی قربت کا معیار تقویٰ رکھا ہے
تو کیا اس کے گھر مسجد کا انتظام دیتے ہوئے اس کی قربت کے معیار کا خیال نہیں رکھا
جانا چاہیے؟ کیا اس کے گھر کا انتظام سنبھالنے والے کے دل میں اللہ کے رسول کے لقب
رحمت العالمیں ہونے کی خوبی کی توقع نہیں کی جانی چاہیے؟ کیا اپنی امت جس میں
مسلمان اور کافر دونوں شامل ہیں کی فکر میں کھولتے ہوئے پانی کی طرح کی آواز دیتے ہوئے سینے کی لاج نہیں رکھی جانی چاہیے؟ کیا اس
سوچ کی اطباع میں مسجد کے امام کے دل میں انسانیت کی محبت کو نہیں دیکھا جانا
چاہیے؟ کیا مسجد کا انتظام سونپتے ہوئے یہ نہیں دیکھا جانا چاہیے کہ اس شخص کا
معاشرے کی تعمیر و تربیت میں کتنا تجربہ اور سابقہ کارکردگی یا سرگرمیاں کیا ہیں؟ کیا اس کو اپنے پیشہ میں ماہر ہونے کے لئے
معاشرے کی نفسیات اور ملکی نظم و ضبط کو
سمجھنے کی کوئی ضرورت نہیں؟
دینی مدارس کی رجسٹریشن میں بھی تعلیمی درجات کی مطابقت سے
کوئی نگرانی کا عمل ہونا چاہیے اور جید علماء کی نگرانی میں چلنے والے مدارس جیسا کی جسٹس تقی عثمانی، قاری منیب اور کئی دوسرے
علماء شامل ہیں کو ماڈل مدرسوں کا درجہ دیا جائے اور ہر خطیب کے لئے کم از کم ان
ماڈل مدارس میں ایک سال کی درس وتدریس کی شرط کو لاگو کیا جائے تاکہ وہاں ان جید
علماء کی نگرانی میں ان کے رویوں کواسلامی اقدار کے حامل معاشرے کی تشکیل کی خوبیوں اور صلاحیتوں سے
مزین کیا جاسکے اور ایک مدرس کی ذمہ داریوں متعلق ان کی تربیت کو یقینی بنایا جا
سکے ۔ مذید ان کی درس و تدریس میں ریاست کے قوانین اور انتظامی معاملات کو جاننے
اور سمجھنے کی قابلیت کو یقینی بنانے کے
لئے بھی ریفریش کورسز کا انتظام ہونا چاہیے۔ ان ماڈل مدارس میں درس و تدریس سے
منسلک اساتذہ کی باقائدہ تربیت بڑی بڑی یونیوروسٹیوں میں پڑھانے والے اساتذہ کی
طرز پر کی جائے تاکہ تعلیمی نظام میں یکسانیت کی ضرورت کو پورا ہونے کو بھی یقینی بنیا یا جا سکے۔
اسی طرح ان مدارس سے تعلیم پانے والوں کی صلاحیتوں سے فائدہ
اٹھانے کے لئے کوئی ایسا میکنزم بھی بنایا جائے جس میں دینی تعلیم
والوں کے لئے ذمہ داریوں اور ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں۔ جن میں عدالتوں میں معاون، شرعی مسائل پر
فتوے جاری کرنے کے لئے رجسٹریشن کا ادارہ، قاضی کورٹس، تھانوں کی مصالحتی کمیٹاں،
یونین کونسلوں کی ثالثی کمیٹیاں، پولیو یا دوسرے صحت کے مدافعانہ سکیموں کی ٹیموں
کی معاونت کا کردار اور اسی طرح تحصیل اور ڈسٹرکٹ لیول کی مساجد کے علماء کو
انتظامی کمیٹیوں میں شامل کر کے حکومتی پالیسیوں کے اطلاق میں ان کے مثبت کردار
میں مدد لی جا سکتی ہے۔ اگر ان لوگوں کی ایسی جگہوں پر شمولیت ہوگی تو نہ صرف وہ خود ضابطہ اخلاق کے پابند ٹھہریں گے بلکہ
دوسروں کی اخلاقات کی درستگی میں بھی ممدومعاون ہونگے اور اس سے دین اور دنیا کے
درمیاں حائل تعصب بھی ختم ہوگا۔
ایسی اصلاھات کے زریعے سے دینی حلقوں کے کردار کو فعال نظام
کا حصہ بنانے میں مدد ملے گی۔ اس کے لئے حکومت کو شروعات کرنی چاہیں مگر اس کی
کامیابی کا راز مذہبی راہنماؤں کی رضاکارانہ کوششوں سے مشروط ہے اس کے بغیر خاطر
خواہ فائدہ تو کیا اس کوشش کو مزاحمت سے بھی نہیں بچایا جا سکتا ہے اور یہی خوف آج
تک اس معاشرتی بگاڑ کی اصلاح میں سب سے بڑی رکاوٹ رہا ہے جس کا تاثرموجودہ قانون
سازی کے عمل کے دوران بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔
میری اس ملک کے جید علماء جن میں مولنا فضل الرحمن، قاری
منیب، جسٹس تقی عثمانی اور داسلامی نظریاتی کونسل کے ممبران علماء اکرام ہیں سے
بھی گزارش ہے کہ جب وہ مدارس دینیہ کو اسلام کے قلعے اور پاکستان کے نظریاتی جغرافیے کے محافظ
سمجھتے ہیں تو پھر ان کو ان قلعوں اور محافظوں کے معیار اور آپس کے اختلافات سے
اسلام کی شناخت کے بگڑنے کے عمل بارے بھی فکر مند ہونا چاہیے۔ ان قلعوں کے
کمانڈروں کے آپس کے اختلافات سے اس طاقت کے کمزور پڑنے کااحساس بھی ہونا چاہیے۔
علماء انبیاء کے وارث ہیں ان کا بہت بڑا مقام ہے اور یہ
وراثت قرآن و حدیث کا علم ہے جس کے ثمرات محبت، امن، اخلاق حسنہ، اخوت، بھائی
چارہ، برابری، بردباری، تقویٰ، ایثار اور احسان ہیں ۔اس وراثت کی تقسیم اور ذمہ
داری کی کارکردگی کو پرکھنے کا پیمانہ ہماری معاشرت جس میں عبادات سے لے کر ہمارے
معاملات تک کا ہر عمل شامل ہے سے ابھرتا ہوا عمومی تاثر ہے جس کا اندازہ ہمارے آج
کے ماحول سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
اس لئے علماء اگر علماء بر نہ منائیں تو ان کو اپنا کھویا
ہوا مقام حاصل کرنے کے لئے آپس کے اختلافات کو باہمی گفت شنید کا ماحول دینا ہوگا
جو اصلاح کی بنیادی شرط ہے۔ انہیں اپنے علمی اختلافات کو اپنی باہمی نشستوں تک
محدود رکھتے ہوئے عام لوگوں تک فروعی اختلافات کے نقصانات سے بچنے کا ماحول اخلاق
حسنہ کے ثمرات کا پہنچنا یقینی بنانا ہوگا ۔اپنی انبیاء کی وراثت کو اس کا اصل
مقام دینا ہوگا جس کی تقسیم اور اگلی نسلوں کے سپرد کرنے کی ذمہ داری انہوں نے خود
رضاکارانہ طور پر اٹھائی ہوئی ہے جس کی ان سے یوم حساب کو جوابدہی بھی ہوگی۔
تاریخ کا اگر مطالعہ کریں تو اس وراثت کی ترسیل کے دوران
ہمیں نبی آخرالزمان ﷺ اور خلفاء راشدین کے ادوار میں کہیں بھی کسی کلمہ گو کو کافر، مشرک یا بدعتی کہنے کی
مثال ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی لہذا ہمیں بھی اپنے انداز تبلیغ کو انہیں اقدار اور معیار کے مطابق بنانا ہوگا۔
اور اگر کسی کے پاس اس کی توجیح یہ ہو کہ اس وقت اس طرح کے اعمال کئے ہی کب جاتے
تھے تو میراسوال ہے کہ یہ اعمال شروع کس نے کئے؟ یہی تو میرے پہلے سوال میں چھپا
ہوا مطمع نظر ہے۔
قابل صد احترام ان داعیوں سے گزارش ہے کہ ان تمام تر اعمال
جن سے شرک، کفر اور بدعت کے تاثر کا گمان ملتا ہے کا تعلق انہی کی انفرادی شناخت کے متحمل عقائد سے ہے جن کے
اندر اپنے سوا اوروں کو کافر، مشرک یا
بدعتی سمجھنا ہی ایماندار اور پکا مسلمان ہونے کے یقین کی تعلیم و تربیت کی شرط
رکھی جاتی ہے، اور اسی سوچ و عمل سے ان فرقوں نے جنم لیا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے ملک جس کو اسلامی تعلیمات پر عمل کے لئے
حاصل کیا گیا کے اندر اسلام کی شناخت میں یکسانیت کو بحال کرنا وقت کا تقاضہ ہے۔
جس کے لئے فرقوں کی ترجیحات کو چھوڑ کر، مسجدوں سے نظریات اور مسالک کے پہرے اٹھا
کر انہیں اللہ کا گھر سمجھتے ہوئے مسلمانوں کو عبادات کی ادائیگی میں آزادی دینی
ہوگی۔ ان کے اندر سے فرقہ واریت کی تعلیمات سے عبادات کی قبولیت کے خوف کو ختم
کرکے تقویٰ اور خشوح و خضوع کو ان کی توجہ کا مرکز بننے کا ماحول مہیا کرنا ہوگا
تب ہی اسلام کے اصل مقصود انسانیت کی فلاح کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔
اس بگڑتی ہوئی
صوتحال کی فکر کرتے ہوئے حکومت کو مساجد کی سرپرستی اور علماء کو اس کا ساتھ دینا
ہوگا۔ دینی حلقوں سے گزارش ہے کہ اپنے مدارس کو شہروں، سلفاء اور اکابریں کے ناموں
پر رکھتے ہوئے اسلام کی شناخت کو فرقوں
میں بانٹنے کی بجائے اپنے اعمال اور تعلیم و تربیت سے اسلام کی شناخت میں یکسانیت
کو فروغ دیں۔ جب انکی تعلیم و تربیت، تبلیغ اور عمل سے اسلام کی شناخت میں یکسانیت
کے ثمرات سے اسلام سرفرازی حاصل کرتے ہوئے امن، بردباری اور بھائی چارے کو فروغ
ملے گا تو لوگ ان کی درسگاہوں اور اکابریں کی کاوشوں تک سراغرسانی کرتے ہوئے خود ہی پہنچ جائیں گے اور
پوچھیں گے کہ اسلام کے اس خدمتگار کی تعلیم و تربیت کے حصول کی نسبت کس مدرسے یا
بزرگ سے ملتی ہے۔
اور اگر اسی طرح ان ناموں کی نسبت سے فرقہ واریت جاری رہی
تو ان سے نفرتوں کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اور اگر اس حساس مسئلے پر توجہ نہ دی
گئی تو فرقہ واریت کی آگ میں جھلستے معاشرے کی دین سے بڑھتی ہوئی نفرت سے لوگ
اسلام سے دور ہوتے جائیں گے اور حالات کا ذمہ دار ان علماء اور اسلامی تعلمات کو
ٹھہرایں گے جن میں ایک فرقے کا عالم دوسرے
فرقے کے مولوی سے نفرت پیدا کر کے دین میں تفریق سے اسلام کی شناخت اور یک جہتی کو
نقصان پہنچا رہا ہے اور نتیجتاً وہی مذاہب کے دخل
سے آزاد سیاست پر زور دیا جانے لگے گا جس کا وقت حکومت اور سنجیدہ علماء
دنوں اطراف سے احساس کے جگانے کا تقاضہ کر رہا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں