معلوم اور نامعلوم کے بیچ میں لٹکتا بے بس انصاف

 

کہا جاتا ہے کہ ظلم اور نا انصافی کو مٹانے کے لئے قانون اور انصاف کی تعلیم اور اس کی آگاہی دی جائے۔آج  حکومتی سطح پر  قانون سازیاں بھی ہوتی ہیں سوسائٹی کی سطح پر اس کی آگاہی کے پروگرام بھی ترتیب دئے جاتے ہیں۔  حقائق کو بیان کرتے ہوئے حل دیے جاتے ہیں لیکن جب انصاف کا نظام ہی پسماندہ ہو چکا ہو تو آئین، قانون، ان کی تعلیم و آگاہی اور انصاف مہیا کرنے والے ادارے سب بے فائدہ ہو جاتے ہیں۔  

جب کسی شہری کو کوئی جانی مالی یا ذہنی اذیت کا خطرہ لاحق ہوتا ہے تو اس کی دادرسی کی پہلی امید پولیس سٹیشن سے ہوتی ہے جسے ریاست نے شہریوں کی جان، مال، عزت و آبرو کی حفاظت کی ذمہ داری دی ہوئی ہوتی ہے اور قانون یہ کہتا ہے کہ کسی بھی وقوعہ کی اطلاع پر فوراً سب سے پہلے اس کا اندراج عمل میں لایا جائے خواہ اس کی اطلاع دینے والے کا وقوعے سے کوئی تعلق ہو یا  نہ ہو مگر ہمارے ہاں سب سے مشکل کام ہی کسی جرم کی رپورٹ کو درج کروانا ہے بلکہ قومی سطح کا ایک چیلنج بن چکا ہے۔ جہاں جرم کا اندراج ہی نہیں ہوگا وہاں انصاف کے عمل کا آغاز کیسے ہوگا؟

چلیں آپ کو اپنا  ذاتی اور تازہ تجربہ سناتا ہوں۔مجھے کچھ دنوں سے نا معلوم افراد کی طرف سے تعاقب کا خدشہ ہو رہا تھا جو پچھلے منگل کو دھمکیوں تک آن پہنچا جس کی اطلاع کے لئے میں تحریری درخواست لے کر پولیس سٹیشن پہنچا تو  پہلے ڈیوٹی آفیسر سے ملاقات کے لئے ایک گھنٹہ انتظار کرنا پڑا اور جب اپنی روداد سنائی تو ان کا جواب  تھا کہ "ملزم ہی نا معلوم ہوں تو پھر ہم کیا کرسکتے ہیں؟" جس پر انتہائی حیرت ہوئی۔میں نے عرض کیا کہ اگر کسی وقوعہ کے ملزم نا معلوم ہوں تو  اس میں جرم سرزد نہیں ہوتا؟ میں نے ان کو بتایا کہ 2018 میں میرے گھر سے لیپ ٹاپ اور ڈیجیٹل کیمرےبھی پر اسرار طریقے سے چوری ہوئے تھے جن کے واضح فنگر پرنٹس بھی ملے تھے جن کی رپورٹ اسی تھانے میں درج ہے وہ بھی آج تک نہین ملے۔  بہرحال کچھ عرض گزارشات کے بعد انہوں نے محرر کو میری درخواست وصول کر کے ڈائری نمبر مرحمت فرمانے کی ہدایات دے دیں۔

مجرم کی تو حتیٰ الوسع یہی کوشش ہوتی ہے کہ اس کی شناخت نہ ہو سکے مگر وہ جتنا بھی چالاق ہو کوئی نہ کوئی ایسی نشانی ضرور چھوڑ جاتا ہے جس سے اس کا سراغ مل جائے۔ مگر ہمارے ہاں نا معلوم ہمیشہ نا معلوم ہی رہتے ہیں یہ ان کی بھی تفخرانہ خاصیت ہے جو شائد قانون اور انتظامی امور کی پہنچ سے بھی بالا تر ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتا کیوں کہ کچھ اور معلوم ہو یا نہ ہو مگر اپنی انسانی، شہری اور صحافتی اوقات اچھی طرح معلوم ہے جس کے ارشد شریف کی روح، مدثرناڑو کا خاندان اور مطیع اللہ جان کا وجود گواہ ہیں۔

بات صرف معلوم نا معلوم کی بھی نہیں راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم میں بھرے مجمعے میں میڈیا کے سامنے چیف جسٹس کو جو خطاب نوازے گئے وہ پوری دنیا نے سنے اور  دیکھے۔

جب ججز کے شعور، اختیار اور بے بسی کا یہ حال ہو کہ وہ اپنے ساتھ ہونے والے سانحات پر کوئی قانونی کاروائی کرنے کی بجائے خطوط کے زریعے چیف جسٹس کو آگاہ کرنا ہی اپنے منصب کی شان سمجھتے ہوں تو پھر کیا کہنا یا سننا۔ ججز ایگزیکٹو سے سننا چاہتے ہیں اور ایگزیکٹو ویسے ہی آزاد ہیں (اس جھنجھٹ سے) کیونکہ انہوں نے کمیشن بنا ئے ہوئے ہیں جو خود مختار ہیں اور  سب کی بے حسی کا یہ حال کہ ان کو  اپنی توجہ دلاتے سردیوں کی ٹھٹرتی راتوں میں بچے، عورتیں اور بزرگوں بھی دہشت گرد دکھتے ہیں۔

جب ججز کی بھرتیوں، تعیناتیوں اور ترقیوں پر سودے بازی ہوتی ہو اور اپنے بندے ججز لگانے کی ثقافت وجودپا چکی ہو ایسی  عدالتوں سے ہم خیال ججز کی اصطلاحات متعارف کرواتے ہوئے عدالت کے نام پر سیاست  کرنے سے زیادہ کیا توقع کی جا سکتی ہے اور ان کے فیصلوں کی صوتحال یہ ہوتی ہے کہ بنچز کی تشکیل سے ہی ان کے بارے قائم تاثرات ان کے فیصلے سنانے لگتا ہے۔

ایسے ماحول میں انصاف کی توقعات کے پیمانے بھی ایسے ہی ہوا کرتے ہیں " وکیل کیا کرنا ہے جج کو ہی کر لیتے ہیں "اس لئے وہاں قانون و انصاف کی تعلیمات اور آگاہی کسی کام کی نہیں ہوتی۔ وہاں صرف قانون سازی کی مشقیں اور اس کی آگاہی کی ورکشاپیں ہی ہوا کرتی ہیں ان کا اطلاق نہیں ہوا کرتا بلکہ ایک قانون بنایا جاتا ہے پھر اس کی ریشہ دوانیوں کو دور کرنے کے لئے نیا قانون، اس کے اطلاق کے لئے ایک ادارہ اور پھر اس کی نگرانی کے لئے ایک اور ادارہ بس یہی مشقیں چلتی رہتی  ہیں کارکردگی صرف بدعنوانی کی صورت میسر آتی ہے۔

بدعنوانی کو ہی لے لیں اس کے متعلق قوانیں اور اداروں کی کوئی کمی ہے؟ لیکن قومی سطح سے لے کر عوامی سطح تک ساری صلاحیتیں خواہ وہ قانون کے استعمال کی ہوں، اس کے اطلاق یا اس پر انصاف  مہیا کرنے کی سب بدعنوانی کو تحفظ دینے میں لگی ہوئی ہیں۔ تعجب اور شرمساری کا تو یہ مقام ہے کہ ریاست کے وسائل ہی کے استعمال سے ریاست کا کباڑہ کیا جا رہا ہے اور قوم تماشہ دیکھ رہی ہے۔

جب انصاف کے ماحول کو یقینی بنانے والے اپنی بے بسیوں کے عقب سے عوام کو اصلاحات کے زریعے حل کی بجائے خرابیوں کے حقائق سنانے کے دھوکے میں مصروف ہوں تو معلوم یوں ہوتا ہے کہ پورا نظام ہی پسماندہ ہو چکا ہے جس کی اصلاح سیاسی انقلاب سے ہی ممکن ہے جس کے لئے شعور اور اعلیٰ اخلاقیات درکار ہوتے ہیں جن کے لئے سیاست، جمہوریت اور ریاست کی بنیادوں کو آئینی حدود کے اندر رہ کر عملی نمونے پیش کر کے ٹھیک کرنا پڑتا ہے۔

نظام کی اصلاح کی اصل  ذمہ داری سیاسی عمل کا حصہ ہوتی ہے جس کے لئے مخلص، با اصول اور سیاسی شعور رکھنے والی قیادت کی ضرورت ہوتی ہے جو عوام کی شعوری تحریک کی مرہون منت ہے۔ اکثر کہا جاتا ہے کہ "عوام ووٹ تو دیتے ہیں مگر مینڈیٹ چرا لیا جائے تو وہ کیا کریں؟"لیکن جب کسی مخالف طاقت کے مد مقابل میدان میں نکلے ہوئے ہوں تو اس طرح کی توجیہات بے معنی سی لگتی ہیں۔ جمہوریت میں یہ جنگ سیاستدانوں اور عوام کو اکٹھے مل کر لڑنی ہوتی ہے۔ کسی بھی شعبے کی کارکردگی اس کے اندر نگرانی، ڈسپلن، اتحاد، یکجہتی اور اہلیت پر منحصر ہوتی ہے۔ اور سیاست میں ڈسپلن لائے بغیر نہ تو آئین کی پاسداری کو ممکن بنایا جا سکتا ہے اور نہ ہی سول بالادستی کو۔ آخر میں مختصراً  کہوں گا کہ انصاف کی تعلیم ہو یا عام تعلیم ،  سیاسی  نظام ہو یا ریاستی انتظام اس کی شعور اور اعلیٰ اخلاقیات سے تزئین و آرائش کرنی کی ضرورت ہے۔

مجھ جیسوں کا قصور یہ ہے کہ وہ بہتری کے لئے کوشاں کیوں ہیں؟ اور حالات کے ہاتھوں  اب یہ کوشش انتہاء پسندی سے خائف معرفت کی زبان اور الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے نہ صرف سوچ اور ذہانت کی سطح پر شعوری اضطراب میں مبتلا ہو چکی ہے بلکہ اعصاب بھی شل ہو رہے ہیں۔ مگر کیا کریں وطن کی محبت میں جب اندر گھٹن ہوتی ہے تو اس کو تحریروں میں ڈھال کر بوجھ ہلکا کر لیتا ہوں اور جب باہر سے دم گھٹتا ہے   تو توقف کر لیتا ہوں۔ آخر میں صرف اتنا ہی

کچھ بھی کہنے سے ڈر لگتا ہے

اپنا گھر بھی دشمن کا گھر لگتا ہے

چاہا بہت نہ کھولوں لب اپنے

پر منافقت اب یہ صبر لگتا ہے

قاضی ملاں، محافظ ہو یا کوئی صحافی

ہر کسی کی باتوں میں شر لگتا ہے

جلا کر رکھ دیا ہےمیرے چمن کو

بےحسی کو تیری جو انداز خبر لگتا ہے

درندوں کو بھی دے گیا ہے مات

دیکھنے میں جو مانند بشر لگتا ہے

شاید بدل گیا ہے قیامت کا تصور

اب تو ہر روز یوم حشر لگتا ہے۔


(شائع ہم سب 14 جنوری 2025)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

دیکھے جانے کی تعداد

انسان اور انسان کی تخلیق ایک دوسرے کے مد مقابل

انسان اور انسان کی تخلیق ایک دوسرے کے مد مقابل
آج انسان اپنے ہی شاہکار سے خوف زدہ کیوں دکھائی دیتا ہے؟ آپ بھی اس بارے سوچیں اور اپنے خیالات سے نیچے دئے گئے فارم کی مدد سے مستفید فرمائیں (قارئین کے لئے اسائنمنٹ)