عمران خان اپنی مقبولیت کو کیسے ناقابل تسخیر اور انقلابی بنا سکتے ہیں؟

 

ان کی مقبولیت کا کوئی اعتراف کرے یا نہ کرے مگر اس کا احساس اور تشویش ہر سطح پر ضرور موجود ہے لیکن اس کا ان کو متوقع فائدہ کیوں نہیں مل رہا اس پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ انکی موجودہ سیاسی حکمت عملی جس کا ڈھنگ 2014 والا اور بیانیہ 2022 والا ہے وہ موجودہ سیاسی حالات سے مطابقت نہیں رکھتی۔ انہوں نے جو سیاسی حکمت عملی 2014 میں بنائی تھی وہ اس وقت کے حالات کے مطابق ٹھیک تھی مگر آج نہیں کیونکہ اس وقت جو سہولیات اور ماحول ان کو میسر تھا  وہ آج نہیں جس کا انہوں نے اپنے تمام تر احتجاج اور ریلیوں اور دوسرے حربے استعمال کر کے اندازہ بھی لگا لیا ہوگا اسی طرح 2022 والا بیانیہ جس کی بنیاد مظلومیت کی بنیاد پر ہمدردیاں اکٹھی کرنا تھا وہ خوب چلا اور اسی سے ان کی 2022 میں گرتی ہوئی مقبولیت کو سہارا ملا لیکن اب اس کو نئی توانائی کی ضرورت ہے جس کے لئے حالات کے مطابق کسی نئی حکمت عملی کو اپنانا ہوگا تاکہ مقبولیت کو پائیدار بنایا جاسکے۔

اب ہمدردیوں کے جذبات سرد اور ترقی کی خواہشوں پر دائیں بائیں سے پڑنے والی جھلکوں کے تاثرات حاوی ہونے والے ہیں جن کا آغاز اب کے پی کے میں حکومت کے خلاف تحفظات اور احتجاج کی صورت انگڑائیاں لیتا ہوا محسوس کیا جا سکتا ہے جس پر آنکھیں بند کرنے سے وہی انجام ہوگا جو 2022 میں عوامی بڑھتی ہوئی مشکلات کے دباؤ پر پی ٹی آئی کے ممبران پارلیمان کی مسلم لیگ نون میں جانے کی دوڑ کا سماں تھا۔  2022 میں تو ان کی حکومت کی تبدیلی سے انکو سیاسی نقصان کی بجائے فائدہ ملا لیکن اب ایسا ہوتا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔ اور اگر وہ اپنی صوبائی حکومت کے مرکز کے ساتھ محاذ آرائی سے ایمرجنسی لگوا کر کارکردگی کی بجائے پھر سے عوام کی مظلومیت کی بنیاد پر ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کریں گے تو یہ ان کی ایک اور بہت بڑی سیاسی غلطی ہوگی جو انکے لئے مذید مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔

مقبولیت ان کا سیاسی اثاثہ ہے جس کو محفوظ کرنے کا ان کو حق پہنچتا ہے مگر اس کو حکومت کی طرف سے ان کے لئے کھڑی کی جانے والی مشکلات اور محاذ آرائی کے سہارے زیادہ دیر قائم نہیں رکھا جا سکے گا۔ حکومت نے ان کے تمام حربوں کے اثرات کوزائل کرتے ہوئے اپنے ترقی کے اہداف کی طرف سفر کو شروع کر لیا ہے اور جیسے ہی وہ اپنے لئے عوامی تاثرات کے ماحول کو سازگار پائیں گے تو وہ ان کی اسیری جیسی مشکلات میں نرمی اور سہولت کا تاثر پیدا کرکے ان کی اس ہمدردی والے بیانیوں کو کمزور بنا دیں گے۔ اور پھر جیت اور ہار کی بنیاد اگلے انتخابات بن چکے ہونگے جن کی تیاری کرنی ہوگی۔

انکے آپریٹرز نے بنگلہ دیش ماڈل کو بھی آزمانے کی کوشش کی مگر وہ بھی نہ چل سکا اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اس مقبولیت کے پیچھے وہ نظریاتی طاقت نہیں جو مقبولیت کو شعوری بنا کر انقلانی بناتی ہے۔ حکومتوں کی طرف سے طاقت کا استعمال اور مزاحمت کا سامنا ہر انقلاب کو ہوتا ہے مگر اس کو عبور کرنے کے لئے اصل طاقت شعور ہی ہوتا ہے۔

جس کی بنیاد ضد۔ ہٹ دھرمی، انا اور شخصیت پرستی نہیں بلکہ حق و باطلا اور صحیح وہ غلط کی پہچان اور بہتری کی نیت ہوتی ہے۔ جس میں اپنا بھی اگر غلط کر رہا ہو تو اس پر تنقید اور مخالف بھی صحیح کر رہا ہوتو اس کی تائید کی جاتی ہے۔ بنگلہ دیش میں ان کے سامنے کسی سیاسی جماعت کی اندھی تقلید نہیں بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے جذبے، نظریے اور شعور کی طاقت تھی جس نے خود ہی قیادت بھی تلاش کر لی اور مشکلات کے با وجود اپنی منزل پا لی۔ نوجوان سیاسی جماعتوں کے ساتھ الحاق سے بالا تر ہو کر نکلے انکا کوئی سیاسی مقصد نہیں تھا بلکہ اپنے آپ کو درپیش مسائل کا حل اور ملک کی ترقی و خوشحالی تھا۔

معزرت کے ساتھ انکی مقبولیت کو شعوری کہنا قدرے مشکل ہے کیونکہ اس کی بنیاد مظلومیت پر ہمدردی کا بیانیہ ہے جو حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا۔ جسے سمجھنے کے لئے 2018 سے لے کر 2022 تک کے منظرنامے میں جا کر حکومت میں ہوتے ہوئے کارکردگی کی بنیاد پر عوامی تاثرات کو دیکھنا پڑے گا۔ جب وہ مہنگائی اور بیروزگاری کی وجہ سے انتہائی نالاں تھے حتیٰ کہ انکے ممبران اسمبلی بھی آپ کو چھوڑنے کی راہیں تلاش کر رہے تھے اور اسی کی بنیاد پر اسٹیبلشمنٹ نے بھی مزید انکے ساتھ چلنے سے کنارہ کشی کا فیصلہ کیا جو ایک حقیقت ہے جس کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ اور اسٹیبلشمنٹ سے نفرت کی وجوہات میں ایک 2018 میں آپ کو حکومت دینے اور آپ کے قبول کرنے کی سیاسی غلطی بھی شامل ہے جس کو شعور کے کینوس پر مقبولیت کی راست بنیاد تسلیم کرنا ممکن نہیں۔ سہولت کاری کا حصول، امیدیں اور محاذ آرائی کا یک ساتھ کوئی جوڑ نہیں بنتا۔

اس نئی حکمت عملی میں حقائق کو قوم کے سامنے رکھتے ہوئے جمہوری اقدار اور سیاسی اصولوں پر قائم رہنے والی اپنی سیاست کا آغاز کرنا ہوگا جس میں اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھنے کی بجائے سیاسی حلقوں میں اپنے اثر کو بڑھاتے ہوئے عدالتوں، پارلیمان، الیکشن کمیشن، سوشل میڈیا اور کے پی کے میں اپنی گورننس پر توجہ دیتے ہوئے اپنی سیاسی مقبولیت کو شعوری بنا کر اپنی سیاسی جنگ کو جیتنا ہوگا۔ اپنی دوسرے درجے کی سیاسی قیادت کی صفوں میں پھر سے سنجیدہ سیاستدانون کی جگہہ پیدا کرنے کا ماحول بنانا ہوگا جس سے ملک کی نظریاتی، سیاسی اور جمہوری سطحوں پر ان کی سیاست بارے سنجیدہ تاثر ابھرے۔

اور پارلیمان کی سیاست کو اپنے حق میں کیا جا سکے اور یہ کوئی مشکل کام نہیں سیاست اور محبت میں سب ممکن ہے۔ اگر ان کے نظریاتی طور پر سب سے بڑی مخالف جماعت جے یو آئی کے ساتھ قربت اور مذاکرات کا ماحول پیدا ہو سکتا ہے جیسا کہ چند ماہ پہلے دیکھا گیا تو باقی جماعتوں کے ساتھ کیوں نہیں؟ حکومت میں شامل بڑی جماعتوں پی پی پی اور مسلم لیگ نون کے اتحادی ہونے کے باوجود بھی اپنی اپنی سیاسی حکمت عملی کی بنیاد پر عوامی پزیرائی کی دوڑ میں نوک جھونک چلتی رہتی ہے تو ان کو بھی آئین کی بالادستی، عوامی حکمرانی کی بنیاد پر اپنی سیاسی حکمت عملی کو ترتیب دیتے ہوئے پارلیمان میں اپنی مثبت سوچ و عمل کے زریعے سے اپنی اہمیت کو پیدا کرنا ہوگا اور عوام کو احتجاج اور دھرنوں کی بجائے اس طرف متوجہ کر کے پارلیمان کے اندر 2022 کی طرز پر عدم اعتماد کے زریعے سے حکومت کی تبدیلی کے آثار پیدا کر کے اپنی مقبولیت کو سہارا دینا ہوگا۔ جمہوریت مضبوط ہوگی تو پائیدار سیاست کا ماحول بنے گا۔

اور سیاسی ماحول کی تبدیلی میں جس طرح سے انہوں نے خود صحافی کے سوال پر یہ اعتراف کیا ہے کہ حکومت نے معیشت کو سنبھال لیا ہے ملک کے سیاسی حالات کو نیا موڑ دینے والے ہیں۔ ان کی اس مقبولیت کو اگر سہارا نہ دیا گیا تو نقصان دینے والے ہیں جن کا آغاز کے پی کے سے ہوگا جہاں انکے پاس پچھلے تین دورانیوں سے حکومت ہے اور عنقریب صوبوں کے درمیان کارکردگی کی بنیادوں پر شعوری مقبولیت کا متحمل مقابلہ ہونے والا ہے جس میں ہر صوبے کے عوام دوسرے صوبوں کے حالات سے متاثر ہوتے ہوئے اچھی کارکردگی پر حوصلہ افزائی اور خرابیوں پر تنقید کرنے پر مجبور ہونگے بلکہ بحث مباحثے اور مذاکرے ہونگے جن کی پیشگی تیاری کرنا ہوگی۔

اور یہ معیشت کی بہتری کا اعتراف ان سے اپنے سیاسی محاسبے کا تقاضہ کر رہا ہے۔ ان کی طرف سے بہتری کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی حکمت عملی جس میں انکی صوبائی حکومتوں کی طرف سے آئی ایم ایف کو قرضہ نہ دینے کے خطوط اور ملک کے ڈیفالٹ ہو جانے کا بیانیہ تھا پر ندامت کی بجائے ابھی بھی بیرونی زرمبادلہ میں رکاوٹ بننے کی کوششوں پر قائم ہیں جس کو بدلنا ہوگا۔ اگر انہوں نے معیشت کی بہتری کے اعتراف کے ساتھ مرکزی حکومت کی ترقی پر سوالیہ نشان اٹھایا ہے تو شعوری سطح پر دانشمندی کا یہ بھی تقاضہ ہے کہ اب خیبر پختونخواہ صوبہ جہاں انکی جماعت پچھلے بارہ سالوں سے بر سراقتدار ہے اپنی ترقی کے وہ نمونے عوام کو دکھائیں جن میں وہ دوسرے صوبوں سے آگے ہوں تاکہ عوام میں ان کو مزید پزیرائی ملے۔

اب ان سب سوالوں کا سامنا کرنے کی تیاری کرنی ہوگی جس کے لئے کے پی کے میں گورننس کو بہتر بنا کر عوام کو سہولتیں دینے کی طرف توجہ دینی ہوگی۔ اگر وہاں دوسرے صوبوں میں عدالتوں اور پولیس کو مطلوب افراد کو پناہ مل سکتی ہے۔ ریاستی اداروں کی حصول کی کوشش کے با وجود تحفظ فراہم کیا جا سکتا ہے تو وہاں پر امن کے لئے اپنے اختیارات اور صلاحیتوں کو کیوں نہیں استعمال کیا جا سکتا تاکہ عوام کو ریلیف دے کر ان کے تحفظات کو دور کیا جا سکے۔

فروری 2024 کے انتخابات نے ایک بات واضح کر دی ہے کہ سوشل میڈیا اب کوئی فرضی بات نہیں رہی بلکہ یہ زمینی حقائق سے ہم آہنگ ایک عملی سیاست کا حصہ ہے جس پر تکنیکی اعتبار سے خلا پر قابض ہونے کی آپ کی جماعت کو برتری حاصل ہے جس کا فائدہ اٹھانے کے لئے اب اپنی مقبولیت کو شعوری بنانے اور آگے بڑھنے کی راہیں تلاش کرنا ہونگی۔ اگر اپنے ووٹرز کو انگیج رکھنے کو وہ اپنی مجبوری سمجھتے ہیں تو اسے سوشل میڈیا کے سپیس میں جاری رکھا جا سکتا ہے بلکہ وہاں ہی ان کو پارلیمانی سیاست میں کوششوں سے متوقع نتائج کی طرف متوجہ کیا جائے۔ اور اس غیر مشروط مقبولیت کو اگر محاذآرائی میں استعمال کرکے فائدہ حاصل نہیں کیا جا سکا تو ملک و قوم کی فلاح میں مفاہمت کا کوئی بیانیہ بنا کر اس سے مستفید ہونے کی راہیں تلاش کی جائیں۔

اگر وہ ملک و قوم کی فلاح کے لئے مثبت سوچ رکھتے ہیں تو   سیاسی استحکام کا کریڈٹ لینا چاہیے اور اس ضمن میں انہیں اپنی طرف سے میثاق مفاہمت پیش کرتے ہوئے سب سیاسی جماعتوں اوراسٹیبلشمنٹ کو یہ تجویز دینی چاہیے کہ آئیں اگلے پانچ سالوں کے لئے سیاست میں محاذ آرائی کو ختم کرتے ہوئے ملکی فلاح کے لئے سب مل کر دنیا کی ترقی کی دوڑ میں آگے بڑھنے کے مواقعے تلاش کرتے ہیں تو ان کی مقبولیت ناقابل تسخیر بن جائے گی۔اور وہ اس میثاق کو اپنے اسٹیبلشمنٹ کے حکومت سازی میں دخل اندازی سے باز رہنے اور اصلاحات سے مشروط کر کے اپنے ان مخلصانہ مطالبات پر  دوسری سیاسی جماعتوں سے بھی ہمدردیاں  حاصل کر سکتے ہیں۔

موجودہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو اگر وہ دباؤ اور محاذ آرائی سے زیر نہیں کر سکے اور اپنے لئے الٹا مشکلات پیدا کی ہیں تو اس کا سبب ان کی سرگرمیاں اور ان سے ابھرنے والا تاثر ہے وگرنہ ان کی قائدانہ اور ان کی سوشل ٹیم کی اہلیت اور صلاحیتوں سے کسی کو انکار نہیں۔ اگر وہ 27 نومبر 2022، 9مئی 2023یا 26نومبر 2024 جیسی سرگرمیوں کے منفی تاثرات سے اپنے آپ کو محفوظ رکھتے تو اتنی مشکلات پیدا ہی نہ ہوتیں۔اب بھی اصل مسئلہ ہی ان کی طرف سے سیاسی استحکام کی یقین دہانی کا ہے اور جو جو ان کی جماعت میں سے کرواتا گیا وہ امن میں ہے۔  لہذا اگر وہ چاہتے ہیں کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی وہ مجبوری بن جائیں تو وہ اپنی ان صلاحتوں کو محض مثبت سمت دے کر اپنی اہمیت کو نمایاں بنا سکتے ہیں۔  حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو انکی ذات سے نہیں بلکہ ان کی محاذ آرائی سے شکوہ ہے ۔

ان کے لئے مرکزی حکومت سے باہر اور اپنی صوبائی حکومت کے پلیٹ فارم سے بھی  مواقع موجود ہیں۔وہ اپنی سوشل میڈیا کی ٹیم کی بے مثال صلاحیتوں کو  مثبت انداز میں استعمال کرتے ہوئے آئی ٹی سے منسلک کسی ایسے پراجیکٹ کے ماڈل کی مثال قائم کرکے پاکستان کی نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقعوں سے انکی دلچسپیوں کو سہارا دیتے ہوئے ملکی اور عالمی سطح پربحثیت ایک فل ان تھراپسٹ کے شوکت خانم یا نمل یونیورسٹی کی طرز پر  معاشی انقلاب یا پاکستان میں سرمایہ کاری اور ریمیٹنس کی آمد کے لئے اپنا کردار ادا کرکے حکومت کو اپنا احسان مند یاحکومت سے باہر رہ کر بھی عوامی پزیرائی کو اپنے حق میں ٹھہرا سکتے ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ ان کی مقبولیت کی صلاحتیوں اور اہلیت کا استعمال ہوتے ہوئے پاکستان کو نمایاں فائدہ پہنچے جس کی ایکنالجمنٹ ان کے حریفوں کو حکومت میں ہوتے ہوئے بھی پیچھے چھوڑ دے۔

ان سے حکومت لئے جانے کی بنیادی وجہ ہی بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال تھی جس کا اعتراف ان کے وزراء بھی کر چکے ہیں کہ "اگر ان کی حکومت نہ جاتی تو بہت خرابی پیدا ہونے والی تھی" وگرنہ جس قدر ان کو سہولتیں دی جاتی رہی ہیں ان کی پاکستان کی آمرانہ جمہوریت میں مثال نہیں ملتی جس کی ایک نئی جہت "ہائبرڈ جمہوریت"انہی کی ان سہولتکاریوں اور ایک پیج پر ہونے کے ماحول سے متعارف ہوئی ہے جس کی مخالفت کے وہ اس وقت سب سے بڑے علم بردار ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ لیکن اس کے برخلاف جس طرح سے ان کا سیاسی بیانیے میں دعویٰ ہے کہ ان کے جانے کے بعد ان سے نہ سنبھال پانے کی وجہ سے معیشت خراب ہوئی ہے تو اپنی اور اپنی ٹیم کی  صلاحیتوں سے اس کا عملی ثبوت دیتے ہوئے اب بھی اگر معیشت میں بہتری کا کوئی ماڈل یا اس میں اپنا کردار ادا کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو ان کی ہر طرح کی محاذآرائی خود بخود ہی منطقی انجام کو پہنچ جائے گی۔ یا پھر  حکومت کی میثاق معیشت پر ساتھ دینے کی آفر پر انہیں متاثر کن تجاویز دے کرمعیشت کی بہتری کے عمل میں سربراہی کا مطالبہ بھی کر سکتے ہیں  یا   اپنی صوبائی حکومت کے لئے مالی امداد یا ترقیاتی پراجیکٹ کے حصول کو مذاکرات میں مدد سے مشروط کرکے فائدے اٹھائے جا سکتے ہیں۔

اگر وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ رکھا جانے والا سلوک مناسب نہیں تو پھر ان کو اپنے دور اقتدار کے حالات کو بھی یاد کرنا چاہیے کہیں یہ مکافات عمل کا ہی تسلسل تو نہیں جس کوختم کرنے کے لئے بھی سیاسی ماحول کو جمہوری اقدار اور اصولی سیاست سے مزین کرنے سے مشروط ہونے کو یقینی بنانے کی طرف بڑھنا ہوگا جو مذاکرات سے ہی ممکن ہے۔ جس کا ان کو 2018 میں اقتدار سنبھالنے سے بھی پہلے سیاسی جماعتوں کی طرف سے عندیہ دیا گیا جس کو انہوں نے نظر انداز کر دیا تھا۔

اگر اس تسلسل میں وہ این آر او کے مرحلے میں داخل ہونا چاہتے ہوں جس کا انہوں نے بظاہر تو انکار بھی کیا ہے لیکن اگر کوئی ایسی امید وابسطہ کی بھی جا رہی ہے تو غیر مناسب نہیں۔ سیاسی بنیادوں پر اسیری کوئی اچھی مثال نہیں اس کا بھی کوئی مستقل حل سیاسی جماعتوں کو باہمی اتفاق رائے سے سیاسی نگرانی والی طرز پر ڈھونڈنا چاہیے تاکہ کل کوئی نیا سیاسی کردار پھر سے اس عمل کا آغاز نہ کر دے۔

بین الاقوامی سطح پر انکی  حمائت کے لئے پی ٹی آئی  سوشل میڈیا کی ٹیم کی کوششیں قابل تعریف ہیں مگر ان کا فائدہ بھی اس لئے نہیں ہو پا رہا کہ پاکستان کے دوست ممالک جن کی پاکستان کے تجارتی اور معاشی پالیسیوں کے ساتھ مفادات اور دلچسپیاں جڑی ہوئی ہیں بھی ان سے اپنی راہ میں رکاوٹ بننے سے خائف ہونے کی بنیاد پر نالاں ہیں جو وہ ہر دفعہ بیرونی ڈیلیگیشن کی آمد پر احتجاج اور دھرنوں سے مشکلات کی صورت اپنے بارے ایک تاثر بنا چکے ہیں کو بھی اب تبدیل کرنا ہوگا اور بیرونی دباؤ کو ان کے ساتھ ہمدردیوں کی سوچ کے ساتھ ہم آہنگ بنانے کی کوشش کرنی ہوگی۔

مقبولیت کا حصول بھی آسان کام نہیں مگر اس کو قائم رکھنا اس سے بھی مشکل مشق ہے۔ اور اس مقبولیت کو اگر سمجھا جائے تو قومی اثاثہ بھی بنایا جاسکتا ہے جس کے لئے سیاستدانوں کو اجتماعی سطح پر سوچ کر اس کو مثبت سمت میں استعمال کرنے کی راہ نکالی جا سکتی ہے۔ اسے اقتدار کے حصول کی طمع سے آزاد کر کے عمران خان کو وہی 1992 والا عمراں خان سمجھتے ہوئے میثاق مفاہمت کی طرز پر کسی معاہدے پر پہنچ کر اپنا ہیرو بنالیں اور انہیں بھی ایسی سوچوں کی راہ ہموار کرنے اوراس پرسب کا ممنون ہونے کا رویہ اپنانے میں پہل کرنی چاہیے۔ اقتدار کی جنگ کا خاتمہ کوئی مشکل کام نہیں جب پوری قوم ایک ہو جائے اور ملک و قوم کی فلاح کی خاطر اپنے اختلافات کو بھلا کر مفاہمت کی پالیسی پر چلنے کی ٹھان لے تویہ عہدے اور وزارتیں علامتی سی بن کر رہ جاتی ہیں۔ساری جماعتیں اپنی اپنی نمائندگی کے تناسب سے وزیر اعظم کا عہدہ بھی سالوں کے دورانیے کے حساب سے لے سکتے ہیں اور وزارتیں بھی اسی نسبت سے لی جا سکتی ہیں۔ بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ جب پوری قوم اور سیاسی جماعتیں کسی ایسے میثاق مفاہمت پر متحد ہوجائیں تو یہ عہدے صرف ذمہ داریاں بن کر رہ جاتے ہیں اور ان کی اہمیت صرف خدمت کے جذبےسےجڑ کر رہ جاتی ہے اور ان کی خواہش بھی معدوم ہو جاتی ہے۔

حکومت اور اسٹیبلشمنٹ  سے بھی گزارش ہےکہ وہ اس مقبولیت کو اپنے حریف کی نہیں بلکہ قومی اثاثہ سمجھتے ہوئے اس کو شعور دےکر اپنی افرادی قوت کی صلاحیتوں اور اہلیتوں کو ملکی سلامتی اور خوشحالی میں استعمال ہونے کے ماحول کو پیدا کر کے اگر وہ اپنی سیاسی  ساکھ کی قربانیاں دے کر ملک کو بچانے کے دعوے کا عملی ثبوت دینا چاہتے ہیں تو  پی ٹی آئی کے ساتھ جاری مذاکرات کو "قومی میثاق مفاہمت" پر ایک ہوجانے سے مشروط کر دیں اور عالمی سطح پر ایک "سافٹ انقلاب" کی نئی مثال قائم کرنے میں اپنے حصےکا کردار ادا کرنے میں دیر نہ کریں یا اس کا کوئی دوسرا حل ڈھونڈیں۔

اگر اس پر توجہ نہ دی گئی تو آپس کی محاذ آرائی کا رجحان نہ صرف قومی افرادی قوت کےزائل ہونے کی خطرات رہیں گے بلکہ سیاسی عدم استحکام سے معاشی بہتری کی رفتار بھی متاثر ہوگی کیونکہ جہاں ایک طرف حکومت کی کوششوں سے سرمایہ آ رہا ہے وہاں سول نافرمانی جیسی تحریکوں سے فارن ریمٹنس بھی متاثر ہورہی ہے اور عوام میں مایوسی سے لوگ سرمایہ لے کر یہاں سے بیرون ملک سکونت اختیار کرنے کی کوششوں میں بھی لگے ہوئے ہیں جس سے اچھے نتائج کی توقعات کم پڑتی جائیں گی۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

دیکھے جانے کی تعداد

انسان اور انسان کی تخلیق ایک دوسرے کے مد مقابل

انسان اور انسان کی تخلیق ایک دوسرے کے مد مقابل
آج انسان اپنے ہی شاہکار سے خوف زدہ کیوں دکھائی دیتا ہے؟ آپ بھی اس بارے سوچیں اور اپنے خیالات سے نیچے دئے گئے فارم کی مدد سے مستفید فرمائیں (قارئین کے لئے اسائنمنٹ)