اس وقت ملک عدم برداشت اور انتہا پسندی کی آگ میں جھلس رہا ہے۔ کہیں سیاست کے نام پر بد تہذیبی تو کہیں مذہب کے نام پر اپنی نفسیاتی کمزوریوں اور جاہلیت کو مذہبی جواز بنا کر اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش سے ملک و قوم کو معاشرتی بگاڑ کے ذریعے نا قابل تلافی نقصان کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔
چند دن قبل سندھ سے ڈاکٹر شاہنواز کو توہین مذہب کے الزام کے بعد جعلی پولیس مقابلے میں مار دیا گیا اور اس کی لاش کو اس کا وارثان سے چھین کر بے لگام ہجوم کی طرف سے جلانا توہین مذہب کی آڑ میں توہین انسانیت کا ارتکاب ہے جو انتہائی قابل تشویش بیمار معاشرے کی علامت ہے۔
یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں، دو ہفتے قبل کوئٹہ میں پیش آنے والے واقعہ میں پولیس کی حفاظت میں ملزم کی جان کا دشمن قانون کا رکھوالا اہلکار ہی بن گیا تھا۔
ضلع سوات کے علاقے مدین میں توہین قرآن کے الزام میں سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے سیاح کو ایک ہجوم کی جانب سے تشدد کر کے قتل کر دیا گیا اور وہاں بھی لاش کو آگ لگا دی گئی تھی۔
رواں برس ہی مئی میں سرگودھا کے علاقے مجاہد کالونی میں ایک فیکٹری کے باہر زمین پر گرے مقدس اوراق کی نشاندہی پر کچھ ہی گھنٹوں میں حالات اس قدر کشیدہ ہو گئے تھے کہ امن و امان کی صورت حال پر قابو پانے کے لیے پولیس کے ہزاروں اہلکار تعینات کیے گئے۔ اس واقعے میں بھی ملزم ہجوم کے تشدد کے باعث ہلاک ہو گیا تھا۔
فروری میں لاہور میں بھی اسی نوعیت کا واقعہ پیش آیا جب ایک خاتون پر اچھرہ بازار میں دوران شاپنگ اس کے لباس پر ڈیزائن کی وجہ سے مشتعل ہجوم کی جانب سے توہین مذہب کا الزام عائد کیا گیا۔ ہجوم نے الزام عائد کیا تھا کہ خاتون کے لباس کے پرنٹ پر قرآنی آیات لکھی گئی ہیں۔
اس صورت حال میں اے ایس پی گلبرگ شہر بانو نقوی کی جانب سے بروقت کارروائی نے صورت حال کو ناصرف بگڑنے سے بچایا بلکہ خاتون کو بھی مشتعل ہجوم سے بحفاظت نکالنا ممکن بنایا۔ یہ واقعہ تو معاشرتی جہالت کی ایک بدترین مثال ہے کہ ہحوم جس کی راہنمائی باریش نام نہاد دین کے ٹھیکیدار عربی حروف کو قرآن سمجھ کر انسانی جان لینے کے درپے تھے۔
اگست 2023 میں پنجاب کے شہر جڑانوالہ میں توہین مذہب کے الزام میں مسیحی آبادی پر حملوں اور جلاؤ گھیراؤ کے واقعات میں مشتعل ہجوم نے متعدد گرجا گھروں اور مسیحی عبادت گاہوں کے علاوہ 86 مکانات کو آگ لگائی اور ان میں توڑ پھوڑ بھی کی گئی۔
2021 میں اسی نوعیت کا واقعہ سیالکوٹ میں بھی پیش آیا تھا جب ایک فیکٹری میں بطور مینجر کام کرنے والے سری لنکن شہری پریانتھا کو ایک مشتعل ہجوم نے توہین مذہب کے الزام میں تشدد کر کے ہلاک کرنے کے بعد ان کی لاش کو آگ لگا دی تھی۔
اسی طرح صوابی سے تعلق رکھنے والے 25 سالہ مشال خان کو 13 اپریل 2017 کو مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں طلبہ اور یونیورسٹی کے کچھ ملازمین پر مشتمل ایک مشتعل ہجوم نے توہینِ رسالت کے الزامات لگانے کے بعد تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا تھا۔
ان تمام توہین مذہب کے واقعات میں جو باتیں مشترک پائی جاتی ہیں وہ یہ ہیں کہ ان سانحات کی بنیاد غلط بیانی، غلط فہمی، اشتعال انگیزی، ذاتی رنجشیں اور بے بنیاد الزامات تھے جن میں ملزموں کو سنا تک نہیں گیا اور نا ہی ان کو اپنی وضاحت کا موقع دیا گیا جبکہ قانون اور انتظامی ادارے تحفظ دینے میں بری طرح ناکام رہے۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ صورت حال دن بہ دن خراب ہوتی جا رہی ہے جس سے معاشرتی بگاڑ کی نشاندہی ہو رہی ہے اور اس سے اس بات کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے کہ یہ مرض گہری جڑیں پکڑ چکا ہے۔ حالات اس قدر بگڑ چکے ہیں کہ نہ لاشوں کو چھوڑا جاتا ہے اور نہ ہی قبروں کی حفاظت ممکن رہی ہے۔
سب سے بڑھ کر تشویش ناک بات تو یہ ہے کہ کسی ملزم کو اپنی صفائی کا موقع فراہم نہیں کیا گیا جو ریاست کے انتظامی امور میں ناکامی کی طرف اشارہ ہے۔ جب سزا یافتہ مجرموں کے گلے میں ہار ڈالے جائیں، ان کی قبروں پر دربار بن جائیں اور لوگ وہاں پھولوں کی چادریں چڑھانا شروع کر دیں تو پھر ریاست کے انتظامات، حکومت کی رٹ اور عدالتوں کے نظام انصاف پر سوال اٹھنا شروع ہو جاتے ہیں جس کا لا محالہ شہریوں کی نفسیات پر بھی اثر پڑتا ہے اور ان کے دلوں میں ریاست اور اس کے اداروں کی عظمت اور عزت کم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔
سیاسی اور مذہبی قائدین کے رویے اس حد تک غیرذمہ دارانہ ہو چکے ہیں کہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر قومی تشخص کو خراب کر رہے ہیں۔ جیسا کہ چند روز قبل ڈنمارک کی ایک عدالت کی طرف سے پاکستان کے دو مذہبی راہنماؤں کو سزائیں سنائی گئی ہیں۔ جب سفارتی آداب اور قوانین کی خلاف ورزیاں کرتے ہوئے اداروں کے اہلکاروں اور سربراہان پر قتل کے فتوے صادر کرنا شروع کر دیے جائیں تو پھر ان کی سزاؤں کے لئے گواہیوں اور ثبوتوں کا سامان ان کی اپنی جذبات سے بھری حواس باختہ بڑھکیں ہی بن جاتی ہیں جن میں وہ قتل و غارت کو دین اور سیاست کے نام پر دوش دے رہے ہوتے ہیں۔ جوش خطابت میں ان کو نہ اپنی قومی اور مذہبی ذمہ داریوں کے تقاضوں کا احساس رہتا ہے، نہ دوسروں کے حقوق اور انصاف کے اصولوں کا تو پھر وہ نا صرف اپنی سزاؤں کے ثبوت فراہم کر رہے ہوتے ہیں بلکہ قومی تشخص کی تباہی کا بھی سبب بن جاتے ہیں۔
اقلیتیں تو پہلے ہی عدم برداشت اور انتہا پسندی والے رویوں سے انتہائی خائف تھیں، اب تو الزام تراشیوں کا رجحان اکثریتی مذہب اسلام کے اپنے ماننے والوں کے لئے بھی وبال جان بن چکا ہے۔ واقعات اور حقائق کی روشنی میں اگر اندازہ لگایا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا تعلق مذہبی پہلوؤں سے نہیں بلکہ تنزلی کا شکار ہماری اخلاقیات سے ہے جو ہمیں ایسے نا سمجھی اور جہالت کی طرز پر سانحات کا شکار کر رہے ہیں۔
یہ انتہا پسندی مذہبی حلقوں میں ہی نہیں، سیاست کا بھی یہی حال ہے۔ سیاسی جماعتوں کے قائدین سول نافرمانی کی تحریکیں چلاتے ہوئے شہریوں کو لے کر اداروں اور قومی املاک پر چڑھ دوڑتے ہیں اور اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی ترغیبیں اور ہلا شیری کو سیاسی اور جمہوری جدوجہد کا نام دے دیا جاتا ہے۔ ریاستی وسائل شہریوں کے امن و سلامتی پر استعمال ہونے کی بجائے سیاسی اور ذاتی مفادات، انتقامی معاملات اور باہمی اختلافات کے لئے استعمال ہونا شروع ہیں۔
پھر نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ عام آدمی قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا شروع کر دے، پولیس ایسے ملزمان کو جعلی مقابلوں میں مارنا شروع کر دے، سرکاری عہدے داروں کی حفاظت پر مامور ریاست کے سکیورٹی ملازمین ہی ان کی جان لینے کے درپے ہو جائیں تو ایسے میں سیاسی استحکام کے لئے قانون سازیوں یا اس پر عمل درآمد سے زیادہ اس کی وجوہات پر تحقیق اور معاشرے کے نفسیاتی علاج سے معاشرے کی مثبت تشکیل کی طرف توجہ دے کر عدم برداشت کے رویے کی اصلاح کی ضرورت درپیش ہوتی ہے تاکہ قانون، عمل درآمد کرنے والے اداروں اور عدالتوں سے صحیح معنوں میں فائدہ اٹھانے کا ماحول پیدا کر کے عدم استحکام کی وجوہات کو ختم کیا جا سکے۔
عوامی نفسیات کی اصلاح کی غرض سے ان کے شعور میں گھس کر ان کی سوچ اور خواہشات پر سزا و جزا کے خوف کا قدغن لگانا پڑے گا تاکہ وہ ان انتہا پسندانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے سے پہلے سوچنے پر مجبور ہو جائیں کہ ان کو سخت نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اس کے لئے آئین، قانون اور انتظامی امور میں اصلاحات اور تبدیلیوں کی ضرورت ہے جس میں انتہا پسندی کی وضاحت کر کے اس کے لئے قانون کو حرکت میں لانا ہوگا اور سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی رجسٹریشن کے اداروں کو یہ اختیارات دینا ہوں گے کہ اس طرح کے سانحات میں ملوث لوگوں کا اگر کسی سیاسی یا مذہبی جماعت سے تعلق بنتا ہے تو ان کو خبردار کرنے کے لئے ان کو تنبیہ کے طور پر ان کی رجسٹریشن پر سرخ نشان لگا دیا جائے جس کا وہ اپنے جھنڈوں اور دوسرے لٹریچرز پر ظاہر کرنے کے پابند ہوں گے تاکہ عوام کو یہ پتہ چلے کہ اس جماعت کے کارکنان انتہا پسندی کے مرتکب پائے گئے ہیں۔
جہاں عوام کے سیاسی الحاق اور جماعتوں کی مقبولیت کے لئے سروے کروائے جاتے ہیں وہاں یہ بھی معلوم کیا جانا چاہیے کہ کون سی سیاسی جماعت جمہوریت اور کون سی مذہبی جماعت مذہب کے نام پر عدم برداشت کو فروغ دینے میں ملوث ہے اور ان کی سرگرمیاں اور انسانی جانوں سے کھیلنے کا مکروہ فعل سیاست اور مذہب کو استعمال کر کے ملک و قوم اور مذہب کو بدنام کرنے کا سبب بن رہا ہے۔
قومی سطح پر سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے قائدین اور علماء کی ایک کانفرنس بلائی جائے اور قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں برداشت، بھائی چارے، رواداری، اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت، قانون کی پاسداری، انتظامی امور میں ریاست کے سربراہ کی اطاعت پر محیط قومی سطح کا بیانیہ مرتب کیا جائے جس پر تمام مکاتب فکر کی تائید کا تاثر موجود ہو اور اسے قومی نشریاتی اداروں کے ذریعے سے عام کرنے کی حکمت عملی تیار کی جائے اور اگر اس کے بر خلاف کسی علاقے سے عوام کو بھڑکانے یا ان کے ذہنوں کو خراب کرنے کی رپورٹس ملتی ہیں تو ایسے مولوی، عالم یا سیاسی قائد کی امامت، خطابت یا عوامی اجتماعات سے خطاب پر مستقل پابندی لگا دی جائے تاکہ ایسے غیر ذمہ دارانہ رویوں کی خرابیوں کا بر وقت کوئی محاسبہ کیا جا سکے اور پھر بھی اگر وہ باز نہیں آتا تو اس کو پابند سلاسل کر دینا چاہیے۔
اس انتہا پسندی کے ماحول اور سوچوں کی فوری تحقیقات کے لئے اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل افراد کی خصوصی تحقیاتی ٹیمیں بنائی جائیں جو جائے وقوعہ پر جا کر حقائق کی تہہ تک پہنچیں اور مؤثر اور تیز رفتار انصاف کی فراہمی کے لئے مقدمات کی کارروائی کے لئے وسیع تجربہ رکھنے والے ججز پر مشتمل ایک سپیشل عدالت قائم کی جائے جو روزانہ کی بنیاد پر براہ راست نشریات کے ساتھ ان مقدمات کی سماعت کرے اور اس کے فیصلوں پر فوری عمل درآمد بھی ہو تاکہ ایسے سانحات میں ملوث لوگوں کو عبرت اور معاشرے کے اندر خوف پیدا کر کے سدباب کو ممکن بنانے کا ماحول پیدا کیا جا سکے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں