قومی سطح پر اسلامی تشخص کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے۔


پاکستان کو، اس کے سرکاری نام کی نسبت سے، عالمی سطح پر ایک اسلامی جمہوری ریاس کی پہچان رکھنے کا شرف حاصل ہے جس کی بنیاد اس کی آزادی کے حصول کی تحریک ہے جو آج بھی ہمارے آئیں کے دیباچے کا بنیادی جز ہے جس کے تحت پاکستان میں کوئی بھی قانون قرآن و سنت سے متصادم نہیں بنایا جا سکتا۔ یوں ہمارا آئین ہمیں قومی سطح پر اسلامی تشخص اپنانے کا پابند بھی ٹھہراتا ہے جس کا اطلاق کرتے ہوئے وفاقی اور صوبائی حکومتیں اخلاقی و شرعی طور پر  ہی نہیں بلکہ  آئینی و قانونی لحاظ سے بھی قومی اور عالمی سطح پر اسلام کی روح سے ہم آہنگ تاثر کو یقینی بنانے کی ذمہ دار ہیں۔  جس کا احساس سرکاری سطح سے لے کر عوامی سطح تک اجاگر کرنے کی ضرورت ہے جس میں قانون کے اطلاق کو یقینی بنانے والے اداروں، اسلامی نظریاتی کونسل اور مذہبی حلقے کے علماء کا اہم کردار بنتا ہے۔

مگر ہمارے ہاں اس کےبرعکس سیکولر دکھنے کی کوشش ایک فیشن بنتی جارہی ہے جو ہماری اندر کی نفسیاتی کمزوریوں کی طرف نشاند ہی ہے جس کی بنیاد ہماری ان سوچوں کی عکاسی ہے جنہوں نے ہمارے اندر مذہب، تعلیم اور نظریات کی بنیاد پر گہری خلیجیں حائل کر رکھی ہیں۔ ہم اپنے اپنے شعبے، کام اور عمل میں خواہ سیاست ہو یا  رسومات مذہب کے نام پر اسلامی ٹچ تو دینا چاہتے ہیں لیکن عملی طور پر ہم اس کی تعلیمات پر عمل کو دقیانوسی سمجھتے ہیں جو ہماری معاشرتی تباہی کی سب سے بڑی وجہ ہے ۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیجئے کہ ہم مسلمانوں کی شناخت تو رکھتے ہیں مگر شخصیت نہیں۔ حالانکہ اسلام کی تعلیمات تو مثالی ہیں جو ایک مثالی معاشرہ اور جمہوری ریاست بنئے میں مدد گار ثابت ہو سکتی ہیں بشرطیکہ ہمیں اس کا ادراک ہو تو۔ ہم اگر اسلامی اصولوں کو اپنی جمہوریت اور سیاست کا حقیقی معنوں میں حصہ بنا لیں جن میں اقلیتوں کے حقوق سے لے کر حکومت سازی، احتساب کے عمل اور برابری کو بنیادی شرط رکھا گیا ہے، تو دنیا میں ایک نمونے کے طور پر اسلامی جمہوری ریاست ہونے کا شرف حاصل کر سکتے ہیں جو اسلامی دنیا ہی نہیں بلکہ سیکولر ریاستوں کے لئے بھی بہترین گورننس کے طور پر ایک مشعل راہ ہو۔ 

ہمارے قومی سطح پر اسلامی تشخص کے بگاڑ کی کئی ایک وجوہات میں سے بنیادی وجہ فرقہ واریت بھی ہے جس کی بنیاد اسلامی تعلیمات کی غلط تشریح ہے جس میں ہمارے مذہبی پیشواؤں کے ماحول اور ذاتی خواہشات کا رنگ بھی نظر آتا ہے۔ ہمارے ماحول کے اسلامی تعلیمات پر اثرات سے دین کی تشریحات نے ہمیں ہماری خواہشات اور ماحول کی بنیاد پر تقسیم کر کے ہمارے درمیان خلیجیں حائل کر دی ہیں۔

خطابت اور بلاغت کے عقب میں معاشرے کی تشکیل  کی بجائےاسے تباہ کیا جا رہا ہے ۔ معاشرے کے اس ۔ نہ صرف مذہبی حلقوں کے درمیاں بلکہ رسمی اور دینی تعلیم رکھنے والوں کے درمیان بھی ضد کی بنیاد پریہ خلیجیں مزید گہری ہورہی ہیں۔

یہ جو  ایک دوسرے کو کافر اور مشرک کہنے کا رواج پنپ چکا ہے، بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اسلامی تعلیمات میں ہر ایک کو اس کے اپنے ایمان، عبادات اور معاملات کو ٹھیک کرنے کے احکامات اور کسوٹی مہیا کی گئی ہے مگر کسی فرد کو دوسرے فرد کے ایمان اور عبادات کو پرکھنے کا کوئی اختیار نہیں دیا گیا کہ وہ اس کی بنیاد پر شرک اور کفر کے فتوے جاری کرتا پھرے۔ یہاں سب اپنے ایمان کو کسوٹی پر پرکھنے کی بجائے دوسروں کے ایمان کی کھوج مین لگے ہوئے ہیں اور یہ سلسلہ علماء کے عمل سے شروع ہوا ہے۔ ایک فرقے کا مولوی جب دوسرے فرقے کے مولوی سے نفرت کروا رہا ہوگا تو معاشرے میں فطور پھیلنے کے علاوہ توقع بھی کیا کی جاسکتی ہے؟ بلکہ یہی عمل حکومت کے انتظامی اور عدل کے امور کے دائرہ کار و اختیار میں دخل اندازی کا موجب بن رہا ہے۔ اور سوسائٹی اسی سوچ کے تحت ایک ایسا پریشر گروپ بن چکی ہے کہ انتظامیہ اور عدلیہ ان کے دباؤ کی وجہ سے ان نظریاتی دہشت گردوں کو حکومت گرفتار کرنے اور عدلیہ ان کے خلاف فیصلہ دینے سے گھبراتی ہے اورتوہیں مذہب کے مقدمے سالہا بغیر کاروائی کے پڑے رہتے ہیں۔ اگر ریاست کا آئیں و قانون کسی کے حقوق کو تحفظ فراہم کرتا ہے تو اس کی خلاف ورزی پر دادرسی کا طریقہ کار بھی مہیا کرتا ہے جس کو اس کی مطابقت سے ہی منطقی انجام تک پہنچنا چاہیے نہ کہ افراد یا گروہ کی خواہشات اور دباؤ کے تحت۔

اگر ہم اسلامی تعلیمات کے صحیح تصور کو سمجھیں تو توحید، رسالت اور ریاستی امور کی بلترتیب اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے اور ایک اسلامی ریاست کے امیر کی اطاعت کو بھی حکما" لاگو کیا گیا ہے۔ اگر اسلامی تعلیمات کی صحیح تشریح اور معاشرے کی اسلامی اقدار پر قائم تشکیل ہوئی ہوتی تو آج جو یہ آئے دن مذہب کے نام پر احتجاج، ہڑتالیں،توہین رسات اور مذہب کے نام پر قتل و غارت کی جاتی ہے یہ کبھی بھی نہ ہوتی۔

کسی بھی مذہبی یا انسانی حقوق کی پاسداری کا قانون فرد یا گروہ کی خواہشات کے تابع نہیں چھوڑا جا سکتا اور اس بارے ہم قومی سطح پر اسلامی تشخص کی تباہی کا نقصان بھی اٹھا رہے ہیں جو کبھی اپنی ہی قومی املاک کو جلا کر تو کبھی انسانی جانوں کے ضیاع تو کبھی دوست ممالک سے مہمانوں کی جانوں کو سر عام ضائع ہونے سے ملکی و قومی غیرت و حمیت کا جنازہ نکلتے ہوئے عالمی سطح پر رسوائی سمیٹتے ہوئے۔

جس ماحول کے اندر ہمارے معاشرے میں اسلامی تعلیمات دی جاتی ہیں ان کا جائزہ لینےسے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے اس نظام کے اوپر اٹھنے والے اخراجات صدقہ ، خیرات اورزکواۃ کے پیسے سے ہوتے ہیں جس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اس نظام کے اندر  معاشرے کے زیادہ تر مالی وسائل سے محروم طبقات کی شرکت رہی ہے جس کا غالب تاثر آج بھی موجود ہے اور دوسری طرف مالی وسائل سے آسودہ حال طبقہ دین کو سمجھنا ضروری نہیں سمجھتے اور کردار سازی کا عمل دونوں اطراف میں ہی انتہائی ابتری کا شکار ہے۔ تکبر، حسد اور نفرت دونوں اطراف میں انتہا کو چھو رہی ہے۔ ایک طرف بے بسی نے قناعت کا روپ دھارا ہوا ہے تو دوسری طرف آسودگی نے کمینگی کو بھی مات دی ہوئی ہے۔ایک دوسرے کو اس صورتحال کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے مذہبی طبقہ دنیا داروں اور آزاد خیالوں کو بے دین سمجھتے ہیں اور ان کو  سیکولر ہونے کے طعنے دیئے جاتے ہیں جبکہ دنیا داروں کی طرف سے مذہبی طبقات کو تنگ نظر ، بنیاد پرست اور انتہا پسند کہا جاتا ہے جس سے نقصان ہمارے نظریات، مذہب اور عالمی سطح پر ابھرنے والی قومی تشخص کا ہورہا ہے۔ آسودہ حال سمجھتے ہیں کہ دین کی تعلیم کا حصول معاشی طور پر محروم لوگوں کا کام ہے۔

ہے کہ جیسے اسلام کی تعلیمات دینے والوں نے اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر دین کو دنیا کے معاملات اور دنیا داروں سے دور رکھنے کی کوشش کی ہے جس کا مقصد شائد ان کو حاصل صدقہ خیرات اور زکواۃ کے استعمال  سے معاشرے کی تشکیل کے دوسرے امور  سے دور اور بے دخل رکھنا تھا جس کی پاداش میں دنیا داروں  انکے معاملات، دین کے علم اور دوسرے علوم کے درمیان ایک لمبی خلیج حائل کر دی گئی۔ یہاں تک کہ دوسرے شعبہ جات کی تعلیمات کو ہی اسلامی تعلیمات کے خلاف پیش کرتے رہے جس سے آج ہمارے اکثریتی عوام کی یہ سوچ ہے کہ  دین کی تعلیمات کے علاوہ دوسرے علوم کا انسان کی صرف دنیاوی زندگی سے تعلق ہے اور اس کا انسان کی آخرت کی زندگی میں کوئی فائدہ نہیں جو کہ نہ صرف اسلامی تعلیمات کے بنیادی تصور کے ہی خلاف ہے بلکہ انسانی عقل اور شعور کے تقاضوں پر بھی پورا نہیں اترتا۔

کیوں ہم بھول جاتے ہیں کہ اسلام میں حقوق العباد کی کیا اہمیت ہے؟ حقوق العباد کے الفاظ انسانیت کے رشتے کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ آج ہمارے رویوں پر اگر غور کیا جائے تو یہ انسانیت کو یکسر نظرانداز کئے ہوئے ہیں۔ ہماری ان تنگ نظرویوں میں کہیں ذاتی مفادات قومیت پر حاوی دکھائی دیتے ہیں تو کہیں قومیت اور نظریات انسانیت کے رشتوں پر بھاری حالانکہ دنیا کے تمام مذاہب اور افکار نے انسانیت کے رشتوں کو اپنی تعلیمات کی بنیاد رکھا ہے۔ ہمارے نبی آخرالزمان نے بھی اپنی امت پوری انسانیت کو کہا ہے، اسلام نے انسانیت کو مخاطب کیا ہے اور جبر کی نفی کرتے ہوئے اس کو قبول کرنے والوں اور انکار کرنے والوں کی نویدوں اور وعیدوں کے باوجود حقوق العباد پر کسی بھی دوسرے تعلق کو حاوی نہیں ہونے دیا۔ مسلمانوں کو اپنی ریاستوں کے اندر اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری کا پابند ٹھہرایا ہے۔ اسلام نے حقوق العباد کی عالمگیریت کو محترم ٹھہرایا ہے بلکہ انسانوں کے علاوہ جانوروں جہاں مذاہب اور نظریات کی شرائط لاگو ہی نہیں ہوتیں ان کے ساتھ برتاو کے بارے میں بھی جوابدہ ٹھہرایا ہے۔

الاقوامی سطح پر بنیاد پرست اور انتہاپسند سمجھا جاتا ہے تو اسکے پیچھے کارفرما ہمارے اجتماعی اعمال سے ابھرنے والا تاثر ہے جس کا اندازہ ہماری نفسیات سے بخوبی عیاں ہے۔ دنیا کے کسی بھی کونے میں کوئی اسلام یا اسلامی شعائر کے خلاف کوئی بات کرے تو ہم اپنے ہی ملک کے اندر احتجاج کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کر دیتے ہیں اور اپنی ہی جان و مال اوراملاک کو نقصان پہنچا کر سکون تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں جس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ ہمیں اس بات کا کوئی احساس نہیں کہ یہ نقصان ہماری اپنی ہی جانوں، مال اور املاک کا ہے جس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ہم عقل شعور سے خالی جذبات رکھتے ہیں، ہمیں فائدے یا نقصان کے اندر کوئی تمیز نہیں اور نہ ہی ہمارے اندر قومی سطح پر کوئی رحم دلی کا عنصر پایا جاتا ہےجس سے ایک دوسرے کے حقوق کی پاسداری اوراپنی ذمہ داریوں کے پورا کرنے کے فقدان کی سوچ کی بھی عکاسی ہوتی ہے۔

حرمین شریفین میں عالمی اتحاد بین المسلمین کا ماحول ہونے کے باوجود اگر وہاں مسلمانوں کے رویوں اور عمل کے زریعے سے ان کے معاملات پر نظر دوڑائیں تو اکثریت کی حالت۔ اکثریت کے اندر وہاں بھی ایثار نظر نہیں آتا،

یہاں تک کہ انکے اٹھنے بیٹھنے کے اندازوں سے بھی تنگ نظری جھلکتی دکھائی دیتی ہے جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔  وہاں کی انتظامیہ کی بے مثال خدمت اور انتظامی کوششوں کے باوجود راستوں کو بند کرنے سے لے کر پہلے پہچنے والوں کی بڑی بڑی چوکڑیوں اور بعد میں آنے والوں کو جگہ دینےمیں حوصلے کی کمی نہ صرف انکے دلوں میں ایک دوسرے کے لئے رحمدلی اور محبت کے فقدان بلکہ خود پسندی اور سوچوں کے بگاڑ کی عکاس ہے جو اس وقت ہمارے مسلمانوں کے متعلق ہونے والے عالمی سطح پر منفی پرچار کی تصدیق ہے۔ دنیا کو ہماری عبادات سے کوئی غرض  نہیں مگر معاملات کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام ہمیشہ اعلی اخلاقیات کی طاقت کی بنیاد پر پھیلا اور آج اگر تنگ نظری، انتہاپسندی اور دہشتگری کو مسلمانوں سے جوڑا جا رہا ہے تو اس میں مسلمانوں کے رویوں اور علمی و تحقیقی میدان میں پیچھے رہ جانے کی وجوہات شامل حال ہیں۔

حالانکہ دین کا تو مقصد ہی دنیا کی زندگی کو اللہ کے احکامات اور رسول اللہ کی سنت کے مطابق گزارنے کا نام ہے۔ دین و دنیا میں تقابلی مطالعہ در اصل دین کی غلط تشریحات کا نتیجہ ہے۔ دراصل دین دنیا کی مادی چیزوں کو ضروریات کی حد تک اہمیت دیتا ہے اور اصل اہمیت انسانیت کی ہے اور اسی تصور کے تحت اس زندگی کا آخرت کی زندگی سے تعلق قائم کرتا ہے۔ اور ہماراے ہاں دین و دنیا کی تقسیم کے تصور نے دونوں اطراف کو ایک دوسرے کے مدمقابل لا کھڑا کیا ہے اور دیندار دنیا داروں کو سیکولر کے طعنے دے رہے ہوتے ہیں اور دنیا دار دینداروں کو مسلمانوں کے اندر جدید علوم اور ترقی کے حصول میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ اس وقت اسلامی کے بنیادی تصور سے دوری کا ہی نتیجہ ہے کہ ہماری مادی ترقی نے خالق کائنات کے فطری حسن کو لالچ و طمعہ میں بگاڑ کر اسے ترقی کا نام دے دیا ہے۔ جس سے انسانی کی بہتری کے اسباب کم اور بگاڑ کے زیادہ پیدا ہوئے ہیں۔

در حقیقت اس کا تعلق دین و دنیا، لبرل ازم، سیکولرازم سے نہیں بلکہ تعلیم و تربیت، اخلاقیات، ہماری ثقافت اور رسومات سے پیدا ہونے والے ماحول سے ہے جس نے ہمیں ان دو مخالف انتہاؤں پر پہنچا کر ایک دوسرے کا دشمن بنا دیا ہے اور ہم اصل حقائق کو سمجھنے سے اس لئے دور ہو چکے ہیں کہ ہمارے درمیان حائل خلیج ہمارے ایمان اور یقین کا حصہ بن چکی ہے جو ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع ہی نہیں دیتی کہ ہم ان مسائل کی اصل وجوہات کو سمجھ سکیں۔ ہمارے ان نفسیاتی مسائل نے ہمیں آج اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ ہمارےدونوں اطراف کے طبقات سے تعلق رکھنے والے سمجھتے ہیں کہ کامیابی و ناکامی کی اصل تعریف ان کو معلوم ہے مذہبی اطراف والے سمجھتے ہیں کہ جنت کی اسناد ان کے پاس ہیں اور ان کی سوچ و عمل کے نتائج کی صورتحال یہ ہے کہ انسانی جانوں کی حفاظت پر مامور  ہی زندگیوں کے لئے خطرات بن چکے ہیں اور ان کو یہ احساس تک نہیں رہا  کہ ان کو سونپی گئی حفاظت کی ذمہ داری کتنی اہم ہے اور وہ اپنی غیر شرعی اور غیر قانونی اقدامات پر عدالتوں اور ریاستی اداروں سے بھی توقعات رکھتے ہیں کہ وہ انہی آئین و قانون کو بھی نظر اندازکرتے ہوئے ہر طرح کی سہولیات اور تحفظات مہیا کریں اور ان کی سوچوں کو ہی زندگی کا اصل مقصد سمجھیں۔

حکومت کو اپنی آئینی و قانونی ذمہ داری سمجھتے ہوئے اس پر توجہ دے کر قانون سازی سے لے کر تعلیم و تربیت اور قانون پر عملدرآمد تک کی کوششوں کو بروئے کار لاتے ہوئے معاشرے کی صحیح تشکیل، انسانی حقوق کا تحفظ اور انصاف کی فراہم کو یقینی بنانے کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھانا ہونگے۔

اس کے لئے ہمارے پاس مشعل راہ کے طور پر اسلامی تعلیمات اور عبادات کا مرکز جہاں پوری دنیا کے مسلمان اپنے فریضہ حج کی ادائیگی کے لئے اکٹھے ہوتے ہیں حرمین شریفین میں رائج نمونہ ہے۔ جہاں نظریاتی اختلافات کی موجودگی کے باوجود سب ایک ساتھ اللہ کی بارگاہ میں ایک ساتھ قیام اور سجود میں عاجزی کے ساتھ حاضر ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی علماء اپنے نظریاتی اختلاف ضرور رکھیں مگر اللہ کے گھر مساجد کو تو ان نظریات کے پہروں سے آزاد کر دیں۔ وہاں عبادت کو اللہ اور اس کے بندے کا معاملہ رہنے دیں اور جو جیسے چاہے اپنی عبادت کرے ہر کسی کو حرمیں شریفین کی طرز پر آزادی سے عبادت کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ اور حکومت کو چاہیے کہ اس پر تمام مکاتب فکر کے علماء اور ان کے پیروکاروں کو اکٹھا ہونے کے لئےقانون کا اطلاق کرتے ہوئے آمادہ کریں۔ حرمین شریفین میں بھی اگر اس پر عمل ہو رہا ہے تو اس میں اہم کردار حرمین شریفین کے انتظامی امور کی ذمہ دار سعودی حکومت ہے جنہوں نے فقہی نظریات کااللہ کے گھروں مساجد میں عبادات پر اطلاق نہیں ہونے دیا اور یہی صحیح اسلامی تصور بھی ہے۔ مساجد اللہ کے گھر ہیں اور ان کے اندر اللہ کے بندوں کی عبادات پر کسی بھی طرح کے کسی بھی فقہی نظریات کے پہروں کو رکاوٹ بننے کی قطعا اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ ملک کی تمام مساجد حکومت کی تحویل میں ہونی چاہیں اور ان کے امام اور خطیب حکومتی عہدیدار ہونے چاہیں جس کے اندر بہتری لانے کے لئے مساجد اور ان سے متصل تعلیمی درس گاہوں اور علماء کو سرکاری سطح پر قومی دھارے میں شامل کرنے کے لئے باقاعدہ قانون سازی کی ضرورت ہے تاکہ مذہبی حلقوں سے وابسطہ انسانی وسائل کی صلاحیتوں کا تشکیل معاشرہ کے لئے مثبت اور صحیح استعمال ممکن بناکر ان کو فرقہ واریت کے فروغ کی بجائے اس کی روک تھام، محبت، اخوت ، بھائی چارہ اورامن کے لئے استعمال کیا جا سکے۔

اس مقصد کی تکمیل کے لئے آئین و قانون کے اطلاق کے ساتھ ساتھ عملی طور پر معاشرے کے اندر اس طرح کے ماحول کو اجاگر کر نے کی ضرورت ہے جس میں سرکاری سطح سے لے کر عوامی سطح پر اللہ کے رسول خاتمنبیین کے اعلی ٰاخلاقیات کی تعلیمات عام ہوں تاکہ ریاست کے معاملات، سیاست اور مذہب کے درمیان حائل دوریوں کو ختم کیا جا سکے جس سے نہ صرف اپنے اعلیٰ اخلاقیات اور اوصاف کی بنیاد پر مذہبی حلقوں کا طبقہ سیاست اور ریاست کے انتظامی امور میں اپنی جگہ بنا سکے بلکہ حکومتی اور سیاسی سطح پر بھی اسلامی شعار پر عمل سے حقیقی محبت کا تاثر ملے۔ اگر اس مملکت خداداد کے اسلامی تشخص کی بحالی کی فکر ریاستی سطح پر موجود ہو تو اس کے عملی تاثر کے ماحول کی جھلک وزیراعظم اور صدر کے ریاست کی بڑی مرکزی مساجد کی امامت کے ذوق شوق اور قابلیت و اہلیت کے عملی اظہار کی صورت نظر آنی چاہیے۔ معاشرے کے آسودہ، خوشحال اور صاحب اختیار واقتدار لوگوں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ اگر ان کو اسلام اور اپنے قومی تشخص کی فکر ہے تو پھر اپنے اندر وہ صلاحیتیں پیدا کریں جو ان کو اللہ کی دی ہوئی دنیاوی نعمتوں کے ساتھ ساتھ دین کی سمجھ اور اشاعت کا زریعہ بھی بنائیں جس کے لئے ان کو اپنے اندر وہ صلاحیتیں پیدا کرنا ہونگی کہ ان کو منبر و مسجد کے ماحول میں بھی مقام حاصل ہو اور معاشرے کے لئے  ایک مثال بنیں اور اس سے دین و دنیا میں حائل خلیج کو کم کیا جا سکے۔ اگر گاؤں کے چوہدری سے لے کر ریاست کے سربراہوں تک کے دل میں دین کی محبت ہو تو کیوں نہ مساجد کے منبر اور امامت کا شوق ان کی زندگیوں میں دیکھنے کو ملے جو ہمارے اسلاف کا عمل رہا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں