انتخابات کے انعقاد اور ملتوی کروانے کے دونوں
بیانیے زور و شور سے جاری ہیں اور انعقاد بھی غیر شفافیت اور جانبداری کے خدشات کے
ہاتھوں یرغمال ہوچکا ہے۔ کوئی موسمی سردی اور امن عامہ کو بنیاد بنا کر ملتوی
کروانا چاہتا ہے تو کوئی اس کے انعقاد سے متعلق انتظامی بد عنوانیوں کے خدشات کے
پیش نظر اس سے راہ فرار تلاش کرنے کی کوشش میں ہے۔
ہمارے سیاسی حلقوں نے اپنے اعمال سے ایسا تاثر
پیدا کر دیا ہوا ہے کہ گویا جمہوری نظام اس ملک میں ناکام ہوچکا ہے جب بھی جمہوریت
سُکھ کا سانس لیتی ہے تو کوئی نہ کوئی جمہوری غدار اس پر شب خون مروا کر اسے کبھی
ہائبرڈ مین کے ہاتھوں یرغمال بنوا دیتا ہے تو کبھی یہ مفاہمتی ہتھکنڈوں کے سامنے
گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جاتی ہے اور پھر ہمارے سیاسی پنڈت اپنے فرمودات جاری کرنے
لگتے ہیں کہ جمہوریت کو چلنے نہیں دیا جاتا۔ جو انتہائی قابل افسوس اور باعثت شرم
موقف ہے۔ جب کسی کے مد مقابل کھڑے ہوں تو یہ جواز نہیں پیش کیا جاسکتا کہ مجھے
جیتنے نہیں دیا جارہا بلکہ اپنی طاقت، جرات اور حکمت عملی سے دنگل جیتے جاتے ہیں۔
ماحول تو ہلا شیری یا ہار جیت کا اعلان ہی کر سکتا ہے۔ اپنی نالائقیوں کو چھپانے
کے لئے کبھی نظام کو مورد الزام ٹھہرانا شروع کر دیتے ہیں تو کبھی اپنی بے بسیوں
پر ہمدردیوں کی بھیک مانگنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس کا مطلب تو ہوا کہ نہ نو من تیل
ہوگا اور نہ رادھا ناچے گی۔ نہ ان کو کوئی کام کرنے دے گا اور نہ یہ پارلیمانی
نظام کامیاب ہوگا۔
جب آئین و قانون ان کو نظام کے اندر بالا دستی
دیتا ہے تو پھر اپنے ان حقوق اور منصب کو انہوں نے اپنی جرات اور حکمت سے ہی
منوانا اور حاصل کرنا ہے جس کے لئے جذبے، دلیری اور قربانیوں اور سب سے بڑھ کر ذمہ
داریوں کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور اگر سیاست کو کاروبار یا
اختیارات کے حصول کو اپنی اجارہ داری کا مقصد بنا لیا جائے تو پھر ایسی سیاست کبھی
بالادستی کی ضامن نہیں بن سکتی۔ وہ بھی ریاست کے وسائل اور اختیارات کے بلبوتے پر ذاتی
مفادات کی خاطر سب کچھ کرتے ہیں اور تم بھی اگر آزادی ملے تو ان سے کم نہیں۔
اس
کے نتائج کو اکثر متازع بنا کر پارلیمان کو عوامی امنگوں کے مطابق قومی مسائل کو
حل کرنے میں کامیاب ہونے میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی رہی ہیں جس نے سیاسی عمل میں بد
اعتمادی پیدا کرکے جمہوریت کو نقصان پہنچایا ہے۔ سیاستدانوں کی ان کمزوریوں کے تحت
پارلیمان کے اجلاس بھی انٹیلی جنس کی مدد سے چلائے جاتے رہے ہیں اور جب کہیں ان کی
خواہشات کے بر عکس پارلیمان نے چلنے کی کوشش کی ہے تو آمریت کے ہاتھوں نظام ہی
یرغمال بنا لیا گیا ہے۔
آج تیسری دفعہ پارلیمان کے ایوان بالا میں
الیکشن کے التوا کے لئے قرارداد جمع کروائی گئی ہے اسے اگر جمہوری کہنے سے انکار
نہیں کیا جاسکتا تو پھر اس میں دانشمندی یا سیاسی شعور کی موجودگی کا اعتراف بھی
نا ممکن ہے۔ اور اس پر جو تبصرے ہورہے ہیں وہ بھی ربوٹک جمہوریت سے کم تو نہیں۔ جب
اجلاسوں کے احکامات اور ایجنڈے کہیں اور سے آنے ہیں تو پھر یہ کام تو ربوٹک
پارلیمان بہتر طریقے سے ادا کر لے گی۔
اسے اگر
آرٹیفیشل ٹیکنالوجی سے مزین کرکے آئین و قانون اور اگلے پانچ یا دس سالوں کے
ترقیاتی منصوبے دے دیئے جائیں گے تو ان نام نہاد ربوٹس سے تو وہ حقیقی ربوٹک
پارلیمان بہترین وژن دینے کے قابل ہوگی۔
تو ایسے حالات میں جب قوم اس کے انعقاد پر تذبذب
کا شکار ہے تو کیوں نہ انتخابات کو سیاستدانوں کے درمیان کسی جمہوری معاہدے تک
ملتوی کرکے ربوٹک پارلیمان بنا دی جائے اور غیر جانبدار اور غیر متنازع اچھی شہرت
اور کردار کی حامل شخصیات پر مبنی ایک کونسل بنا دی جائے جو عوامی رائے اور امنگوں
کی پاسداری کے لئے ان سے براہ راست حاصل کردہ تجاویز کی روشنی میں ربوٹک پارلیمان
کو سفارشات پیش کرتی رہے۔ جس سے قوم کے 25 ارب کے لگ بھگ اخراجات بھی بچیں گے اور
نظام بھی محفوظ رہے گا۔ نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔ نہ روز انتخابات ہوں
اور نہ روز روز پارلیمان آمریت کے ہاتھوں یرغمال ہوکر سیاست اور جمہوریت کے لئے
رسوائی کا موجب بنے۔ ان کی بانسری نے پوری دنیا میں پاکستان کو رسوا کر دیا ہے۔
ویسے بھی اگر دیکھیں تو ماضی کی پارلیمان میں
اکثریتی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو محض پارلیمان کا حصہ ہوتے ہیں ان کی قانون سازی میں
کارکردگی برائے نام ہوتی ہے۔ قوانیں پر
عملدرآمد کا کوئی حل نہیں ڈھونڈھ پاتیں اور پھر جو قوانیں بناتی بھی ہیں ان میں
تضادات اور ان سے ابھرنے والے سیاسی مسائل ہی اتنے ہوتے ہیں کہ سپریم کورٹ عوامی
مقدمات پر توجہ دینے کی بجائے قوانین کی تشریحات پر لگی رہتی ہے۔ اب انتخابات کو
وہ زبردستی کروانے کی ٹھان کر بیٹھے ہیں تو 8 فروری تک پاکستان کی ساری عدالتیں
انتخابات کے بارے مقدمہ بازی کو ہی نمٹائیں گی اور اس سے کوئی خوش بھی نہیں ہے۔
باقی آمدن اور اخراجات کے ہندسوں کی جمع تفریق ہی ہے جس کو ربوٹک پارلیمان بغیر
کسی غلطی کے خدشے کے احسن طریقے سے سر انجام دے لے گی۔ اور قراردادوں کے زریعے سے
اگر عدلیہ اور دوسرے اداروں سے اپنے اختیارات کی بھیک ہی مانگنی ہے تو اس کی ربوٹک
پارلیمان نوبت ہی نہیں آنے دے گی جب اس کو آئین و قانون اوراگلے پانچ سالوں کے
منصوبوں بارے ڈیٹا دے دیا جائے گا تو غلطی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ وہ
حکومتی مشینری کو پورا شیڈیول دے دے گا اور اگر کوئی اس شیڈیول کے مطابق نہیں چلتا
تو اس پر جرمانہ بھی عائد کر دے گا۔ اس پر عملدرآمد ویسے بھی حکومتی مشینری کے موڈ
پر منحصر ہوتا ہے۔
ہاں اگر سیاستدانوں کو عہدوں کا حوس ہے تو اس کا
علاج یہ ہے کہ وزیر اعظم کے لئے سادہ اکثریت سے 172 ارب دو تہائی کے لئے 228 ارب
کی قیمت رکھ دی جائے اور قومی وزارتوں کی
قیمت سات سات ارب اور صوبائی کی پانچ پانچ ارب رکھ دی جائے۔ ایسے ہی صوبائی
اسمبلیوں کی بھی اعداد کے مطابق قیمت متعین کی جاسکتی ہے۔ جو بھی علامتی طور پر
وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ یا وزیر بننا چاہے وہ رقم خزانے میں جمع کروا کے ربوٹک
پارلیمان کو ثبوت جمع کروا دے اور اگر کوئی دوران عرصہ اسمبلی عدم اعتماد کے زریعے
سے عہدہ حاصل کرنا چاہے تو پہلے والے کی ادا کی گئی رقم کو لوٹا کر اس کے برابر
خزانے میں جمع کروا کر عہدہ حاصل کر سکتا ہے۔
جب ایک
ایک ممبر مبینہ طور پر ایک ایک ارب تک کے لگ بھگ اپنے حلقوں میں خرچ کرسکتا ہے تو
پھر وہ اس عہدے کے لئے خزانے میں رقم کیوں نہیں جمع کروا سکتا۔ اسی طرح پارلیمان
کے ایوان بالا کے لئے تو پہلے بھی یہی فارمولے چلتے ہیں جو مختلف لوگوں کی جیبوں
میں چلے جاتے ہیں اس ربوٹک نظام کے زریعے سے وہ خزانے میں آئیں گے۔ صوبوں کے حساب
سے جتنی سیٹیں ہیں ان کی بولی کروا لی جائے اور زیادہ آفر دینے والوں کو ممبران چن
لیا جائے۔
انتخابات سے لے کر وزیر اعظم اور سینٹ کے انتخاب
اور بعد کے سارے معاملات جب پہلے سے ہی مالی بے ضابطگیوں کے ہاتھوں یرغمال بنے
ہوئے ہیں تو کیوں نہ ان کو مالی ضابطوں کے ماتحت لا کر عوامی فلاح کا زریعہ بنا
دیا جائے۔ جو ماضی میں عوام کے نام پر مالی اداروں سے قرضے لے کر عیاشی کرتے رہے
ہیں وہ اگر شوق سیاست و حکومت اور اختیارات و اجارہ داری رکھتے ہیں تو پھر اپنی
جیب سے ملکی قرضوں کو ادا کریں اور عہدوں کے مزے لیں۔ حد ہوگئی ہے، ہماری ان زاتی مفادات اور خواہشات
کے گرد گھومتی سوچوں نے پارلیمان، سیاست، جمہوریت اور حتیٰ کہ ملک و قوم کو ایک
مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔ ہماری اخلاقات کا یہ حال ہے کہ اس سے انسانیت بھی شرمندہ
دکھائی دیتی ہے۔ ہم مسائل کو حل کرنے کی بجائے مسائل کا سبب بنے ہوئے ہیں اور
مرغوں کی طرح ایک دوسرے کو لہولہان کرنے کے درپے ہیں۔ ہمارے اندر مہذب معاشروں
والی کوئی خصلت ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی تو اس سے بہتر نہیں کہ نظام کو خود کار
کر دیا جائے وہ دنیا کے بہتریں نظاموں اور بہتری کے اصولوں کو اٹھا کر لاگو کرتا
رہے گا۔ اسی طرح اداروں میں بھی جہاں جہاں بے ضابطگیاں ہیں وہاں بھی ربوٹک نگران
مقرر کر دئے جائیں جو آئین و قانون کے مطابق حکم صادر کرتے رہیں۔ کم از کم انسانیت
کی تذلیل تو نہ ہو۔ دور جدید کی انسان کی بنائی ہوئی مشینری انسان سے زیادہ فعال،
وفادار اور ایماندار ہوگئی ہے تو کیوں نہ اس سے فائدہ اٹھایا جائے اور انسانوں کو
سیاسی شعور، اعلیٰ اخلاقیات، وفاداری اور ایمانداری کے حصول تک اپنی اصلاح کے لئے
فارغ چھوڑ دیا جائے۔ پاکستان کو پہلی ربوٹک پارلمینٹ ہونے کا عالمی اعزاز بھی مل
جائے گا۔
آئین
میں تو اس کی کوئی گنجائش نہیں لیکن انتخابات کو ملتوی کروانے کا آئین میں کہاں
لکھا ہوا ہے جو ہر آئے دن کوئی نہ کوئی نئی منطق کے ساتھ وارد ہو جاتا ہے۔ کوئی
سیاسی جماعت اپنے اندر جمہوریت لانے کے لئے تیار نہیں اور جو انٹرا پارٹی انتخابات
کرواتی بھی ہیں تو اپنے بنائے ہوئی پارٹی آئین کا بھی خیال نہیں رکھ پاتیں اور
آئینی اداروں کے اختیارات اور ان کی خود مختار حیثیت کو ماننے کے لئے بھی تیار
نہیں دکھائی دیتے۔ ہر معاملہ خاص بندوبست سے چلانے کے عادی ہوچکے ہیں۔ جس سے ظاہر
ہوتا ہے کہ بعض سیاسی جماعتیں انتخابات عوامی خدمت کے لئے نہیں بلکہ اقتدار کی
حصول کے لئے کروانا چاہتی ہیں۔ نہ کوئی سیاسی اصولوں کی پاسداری ہے اور نہ کوئی
جمہوری اقدار کی۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں