ناموس مذہب کے نام پر افراتفری، تشدد، قتل و غارت،
انتشار اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہمارا بہت بڑا مسئلہ ہے اور اس پر سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ ہم
مسلمان جو کبھی بردباری، عفوودرگزر، صبروتحمل اور انسانی حقوق کے محافظ سمجھے جاتے
تھے آج عالمی سطح پر انسانی حقوق کی پامالی کرنے والے اور شدت پسند کے طور پر
دیکھے جاتے ہیں۔ اگر ہم پاکستان کے موجودہ حالات کا جائزہ لیں تو مذہبی توہین کے
واقعات میں بہت ہی ذیادہ اضافہ ہو رہا ہے۔
یہ مروجہ توہین مذہب کی منطق انسانی عقل و شعور ہی نہیں
بلکہ اسلامی تعلیمات سے بھی کوئی مطابقت نہیں رکھتی اور قابل افسوس بات یہ ہے کہ
اس کا کوئی نہ کوئی سرا اسلام کی خدمت پر خود ساختہ مامور مذہبی طبقے سے بھی جڑتا ہے جنہوں نے معاشرے کے
اندر اس اشتعال انگیزی کو ہوا دی جس کی
لپیٹ میں اب پوری قوم آچکی ہے۔ اس کے ذمہ
دار وہ نام نہاد علماء ہیں جنہوں نے بغیر علم کے دین کے نام پرمسجد ومنبر کو
روزگار کا زریعہ اور تبلیغ کو سیاسی
دکانداری بنایا ہوا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو معاشرے کے اندر دین کے پیشوا کے طور
پر جانا اور سمجھا جاتا ہے جو معاشرے کے
اندر ایک نمونے کے طور پر دیکھے جاتے ہیں ۔کل انہوں نے اپنی نفرت بھری تقریروں سے معاشرے
کا جینا دوبھر کیا ہوا تھا اور آج خود ہی
اپنی محنت کی زد میں آچکے ہیں ۔
اخباری اطلاعات کے مطابق آج راولپنڈی کے رہائشی حافظ شاہد
محمود اور عمران اصغر کی شکائت پر مفتی حنیف قریشی کے خلاف 298 اے کے تحت پولیس نے
مقدمہ درج کرلیا ہے ۔ مبینہ طور پر کہا جاتا ہے کہ ممتاز قادری کی اشتعال انگیزی
سے گورنر سلمان تاثیر کے قتل کے پیچھے بھی انہی صاحب کی تبلیغ کا اثر تھا۔رپورٹ کے
متن کے مطابق مفتی حنیف قریشی پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ اس نے صحابہ کے خلاف
بغض کا اظہار کیا ہے جس سے مسلمانوں کے
جذبات مجروح ہوئے ہیں ۔
اگر ہم اعدادوشمار دیکھیں تو ٢٠٠١ سے لے کر اب تک دو
درجن کے لگ بھگ ایسے واقعات ہوچکے ہیں جن
میں پچاس کے قریب جانیں ضائع ہوئیں اور 150 کے قریب لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ اور ان
جرائم میں ملوث افراد کی ہر سطح پر عملی طور پرحوصلہ افزائی کی جاتی ہے ۔ اور
مظلوموں کی داررسی کرنے والوں کو سخت
نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔وکلا کو محض اس لیے نشانہ بنایا جاتا ہے کہ وہ ایسے
مقدمات میں پیروی کیوں کرتے ہیں۔ سال ٢٠٠٤ سے اب تک تقریبا اٹھارہ کے لگ بھگ وکلا
لقمہ اجل بن گئے اور ان کے ساتھ اتنے ہی عام لوگ بھی مارے گئے جیسے کہ اسلام آباد
٢٠٠٧ کے واقعہ میں تقریبا ١٧ عام شعری بھی مارے گئے۔ اسی طرح ملتان میں رشید رحمان کو مار دیا گیا۔ حالیہ جڑانوالہ
اور فیصل آباد میں عیسائی عبادت گاہوں اور
ان کی املاک کو شدید نقصان پہنچایا گیا جس کی تحقیق بھی مبینہ طور پر ایک مذہبی
سیاسی جماعت کے ملوث ہونے کے ثبوت مل رہے ہیں ۔ اسلام آباد کچہری میں کتنی الم ناکی سے وکلاء
کوظلم و بربریت کا نشانہ بنایا گیا۔ میں خود اللہ کا شکر سے بمشکل بچا تھا ،اگر
ایک منٹ کی تاخیر ہوجاتی تو آج بیان کرنے کی بجاے بیان ہو رہا ہوتا۔ احمدیوں کی
عبادت گاہوں کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے اور ان کے کئی ڈاکٹرز اور وکلاء کو بھی
نشانہ بنایا گیا ہے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ پاکستان میں توہین مذہب کے قانون کی
خلاف ورزی میں زیادہ تر سزائیں بھی مسلمانوں کو ہی ہوئی ہیں اور جہاں جہاں بھی کسی
غیر مسلم پر کوئی مقدمہ بنایا گیا ہے اس کی تہہ میں جانے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ
کسی نہ کسی ذاتی رنجش کی بنا پر مقدمہ کا اندراج کروایا گیا یا اس کے پیچھے اشتعال
انگیزی تھی۔ سیالکوٹ کا واقعہ کتنا دردناک تھا جس میں سراسر غلط معلومات کی بنیاد
پر مشتعل ہجوم نے ہمارے دوست ملک کے ایک باشندے کو اتنی بے دردی سے بھرے بازار میں
قتل کیا کہ پوری قوم کے سر ندامت سے جھک گئے۔ اسی طرح کوٹ رادھاکشن اور اسلام آباد کے واقعات انتہائی دردناک تھے۔
اور یہ سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا جس
کی کڑی جڑانوالہ کا واقع ہے جس میں کتنی
املاک کا نقصان ہوا، اسی طرح چند روز قبل
فیصل آباد میں واقعہ ہوا، جس سے ہماری اقلیتی برادری کے اندر ایک خوف سا
پھیل چکا ہے جس سےنہ صرف پاکستان کی بلکہ پورے عالم اسلام کے مسلمانوں کی رسوائی ہورہی ہے جس
کے سدباب کے لئے حکومت کو اس سے سختی سے نمٹنے کا کوئی لائحہ عمل بنانا
چاہیے۔
اگر ہم اس معاملے کا جائزہ لیں تو چند عوامل ایسے ہیں جن سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ مذہبی سے زیادہ معاشرتی معاملہ بن چکا ہے۔ میں معاشرتی اس اعتبار سے کہتا ہوں کہ اس میں مذہبی تو ہین تو گاہے بگاہے ہی ثابت ہوتی ہے مگر معاشرتی پستی ، لاقانونیت اور اخلاقی اقدار کی کمی ہر جگہ نطر
اب اگر اسلامی اور قانونی نقطہ
نظر سے دیکھا جائے تو جہالت اور لا قانونیت کے سوا کچھ بھی نہیں کیو نکہ اگر کوئی
چھوٹی بڑی غلط فہمی یا غلطی سر زد ہوتی بھی ہے تو قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کا
نہ تو اسلام میں کوئی جواز موجود ہے اور نہ ہی جدیدقانون میں۔ ایک جمہوری اور اسلامی ریاست میں
ریاست ہی کے خلاف کاروائی اور سزا دینے کا حق رکھتی ہے۔
اسلامی نقطہ نظر بہت ہی واضح
ہے کہ “ایک انسان کا نا حق قتل پوری انسانیت کا قتل ہے“ یہاں مسلمان نہیں کہا گیا
بلکہ انسان کہا گیا ہے اور پیغمبر اسلام صل اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں
بہترین اخلاقیات کو پروان چڑھانے اور عام کرنے کے لیے بھجا گیا ہوں۔ انسانیت کا
قتل بغیر کسی ثبوت یا صفائی کا موقعہ مہیا کئے، گمراہی نہیں تو اور کیا ہے ۔ اور ایک
اسلامی معاشرے میں اقلیتوں کے مال و جاں کی حفاظت ریاست کے ذمہ سونپی گئی ہے اور
اگر محافظ ہی قاتل بن جائیں تو اس سے بڑی بددیانتی اور گمراہی کیا ہو سکتی ہے۔
جیسے ایک صوبے کے گورنر کو اس کے محافظ نے قتل کردیا۔
دیکھیں
توجتنے بھی واقعات ہوئے ان میں اشتعال اور ذاتی رنجش کا عنصر ضرور سامنے آیا مگر
اس کے باوجود بھی اس کی طرف سنجیدگی سے توجہ نہیں دی جا رہی ۔ ان نفساتی پہلوؤں کو
زیر غور لاکر ان کے بارے کوئی حکمت عملی ترتیب دی جانی چاہیے۔اس ضمن میں چند
تجاویز دینا چاہوں گا۔
تمام مکاتب فکر کے
علماء کی قومی سطح پر ایک کانفرنس بلائی جانی چاہیے جس میں ملک کے جید علماء اپنے
متفقہ فتوے کے زریعے سے علماء کے اندر اس معاملے کی حساسیت کو پیدا کرتے ہوئے ان
کو ترغیب دیں کہ وہ اپنے اپنے مراکز پر عوام کی اصلاح کی کوشش کریں اور عوام کے
اندر دین کی روح سے غافل ملاؤں کی طرف سے غلط ذہن سازی کو ختم کرنے میں اپنا کردار
ادا کریں۔ اسی طرح سکولوں کے سلیبس کے اندر بھی سیرت طیبہ کے درگزر
کرنے، مساوات، شفقت ، بردباری، اور ایک اسلامی ریاست کے اندر غیر مسلموں کی حفاظت کی ذمہ داری ، اللہ کے بنی ﷺ کے اخلاق
اور دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ ان کے سلوک کی اعلیٰ مثالوں جیسے موضوعات کو شامل کیاجائے
تاکہ بچوں کے اندر اللہ کے رسول ﷺ کی زندگی کے وہ پہلو اجاگر ہوں جن سے معاشرے کے
اندر محبت اور رواداری فروغ پا سکے۔ مسلمانوں کو اللہ کے نبی ﷺکے اخلاق پر عمل کرکے اسلام کے ان
پہلوؤں کو اجاگر کرنا چاہیے جن کی ان کے بد ترین دشمن بھی تعریف کرتے تھے ۔ ان کی
بعثت سے قبل ان کی چالیس سال کی زندگی میں پورے عرب و عجم میں احترام کی وجہ ان کا
اعلیٰ اخلاق تھا۔انکو نبوت کی فضیلت تو چالیس سال کی عمر میں ملی اس سے پہلے ان کے
انسانوں کے ساتھ معاملات اور اخلاق کی وجہ سے وہ ایک منفرد مقام رکھتے تھے جن میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ اسی طرح ملک کے اندر اب تمام مساجد اور مدارس کی رجسٹریشن مکمل ہوچکی ہے تو پھر ان کے مہتم اور ذمہ داران
کو بھی ایک ڈسپلن کے تحت لا کر ان کے لئے بھی کوئی ضابطہ اخلاق ہونا چاہیے تاکہ ان اداروں کا کوئی ذمہ دار مہتمم ہو اور ان کی کوئی ٹریننگ ہو
کہ اداروں کو کیسے چلایا جاتا ہے ۔ مدارس اور مساجد ہمارے بہت ہی اہم ادارے ہیں اور ہماری تعلیم و
تربیت میں ان کا بہت بڑا حصہ ہے۔ ضرورت ان کو صحیح طرح سے استعمال کرنے کی ہے ۔ان
لوگوں کے اندر بہت زیادہ پوٹینشل ہے ضرورت ان کو استعمال کر کے ترقی کے عمل کا حصہ
بنانے کی ہے۔ اس طرح کی مذہب کے نام پراشتعال
انگیزی کبھی بھی کوئی ذمہ دار آدمی نہیں کرتا اور جب ان اداروں کی باگ ڈور ذمہ دار
لوگوں کے سپرد ہو گی تو ایسی اشتعال انگیزی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوگا۔ ان ذمہ
داروں کے چناو میں تعلیم کا بھی خیال رکھا جائے۔پھر ان کو ملکی ترقی کے ساتھ مربوط
کرنے کے لیے انہیں اور بھی ذمہ داریا ں
سونپی جاسکتی ہیں ۔یہ ہمارے پاس رضاکاروں کا ایک بہت بڑا ریسورس ہیں ضرورت توجہ دینے کی ہے۔ جیسے ان کو
نکاح خواں کی رجسٹریشن دی گئی ہے اسی طرح اور بھی ذمہ داریاں مثلا‘ پولیو یا وبائی امراض کے بارے مہم سازی ،ثالثی ، امن
کونسلوں جیسی ذمہ داریاں اور نمبرداروں کی
طرح تصدیق کے عمل میں شمولیت وغیرہ سونپ کر مصروف کیا جا سکتا ہے۔ ان کی ذہن سازی کرکے ان کو یہ باور کروانے کی ضرورت ہے کہ ان کے
رویوں کی وجہ سے نہ صرف ہمارےمعاشرے میں نفرتیں جنم لے رہی ہیں بلکہ ہم اسلام کی بدنامی کا سبب بھی بن رہے ہیں جس
سے اسلام کی تبلیغ بھی متاثر ہورہی ہے۔ جب ایک مولوی دوسرے مولوی سے نفرت کروا رہا
ہوگا تو پھر معاشرے میں امن کیسے بحال ہوسکتا ہے۔ جب ہم نے اللہ کے گھروں (مسجدوں) پر نظریات اور مسلک کے پہرے لگائے ہوئے
ہونگے اور کسی کو آزاد مرضی سے وہاں گھسنے اور عبادت کرنے کی اجازت ہی نہیں دیں گے تو پھر ہماری اس اجارہ داری سے
اسلام کے ایک دوسرے کو سننے ، حال جاننے اور
اجتماعیت کے تصور کو پنپنے کا کیسے موقع ملے گا۔ جب ہم ایک دوسرے سے بات ہی نہیں
کریں گے تو پھر اصلاح کا عمل کیسے وجود پا سکتا ہے۔ ہماری علمی سطح کا یہ حال ہے کہ مبینہ طور پر بہالپور یونیورسٹی کا ایک نوجوان
لیکچرار کو صرف اس لئے جیل میں ڈال دیا گیا کہ وہ خدا کے وجود کا انکاری تھا۔ ہم
ایک اسلامی ریاست کے اندر تمام مکاتب فکر کے علماء کا علم اور ریاستی وسائل ہونے کے باوجود کسی کو دلیل سے قائل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور
ہمارے پاس اس کا ایک ہی حل ہے کہ اس کو پابند سلاسل کر دیا جائے یا اس کا سر تن سے جدا ۔ یہاں جس پر ایک دفعہ
جھوٹا یا سچا مذہب کے متعلق توہین کا کوئی الزام لگ جائے تو پھر ہمارے معاشرے کے
اندر جنونیت سے خوف زدہ ذہنوں کے پاس اس کا کوئی شعوری حل ممکن نہیں بلکہ اس کو
معاشرے کی خواہشوں کے طابع لے کر ہی چلنا ہوتا ہے ۔ عدالتوں کے جج ایسے مقدمات سے کتراتے
ہیں کوئی وکیل ایسے ملزم کے لئے پیش ہونے کی جرات نہیں کرسکتا اور تو اور اس موضوع پر لکھنا بھی موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں