عبوری حکومت کوموجودہ معاشی بحران میں ترقی کے پہیے کو روان کرنے کے لئے ملک کے اندر مہنگائی ، بیروزگاری اور غربت سے بڑھتی ہوئی بے یقینی کی صورتحال سے نمٹنا ہوگا تاکہ عوام کو سکون کا احساس دے کر بہتری کے لئے پر امید بنایا جاسکے۔ان کی ذمہ داریوں میں انتظامی امور کو بہتر بناتے ہوئے عوام کو ایک شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے زریعے سے حکومت کی منتقلی اور ان کو ایک اچھے انتظامی امور کا نمونہ دینا ہوگا۔ تاکہ اگلی حکومت پر عوام کا ایک نگرانی کا منصوبہ دیا جاسکےجسے وہ دباؤ سے بحال رکھوا سکیں۔ وہ اگلی حکومت کو اس دلیل کے ساتھ جوابدہ ٹھہرائیں کہ اگر عبوری حکومت حالات کو درست کر سکتی ہے تو پھر ایک انتخابی حکومت کی ناکامی بھی قابل برداشت نہیں ہوسکتی
حکومت کو حقیقت تسلیم کرتے ہوئے عمل سےساکھ کو بحال کرنا ہوگا۔ اب اس ٹیکنالوجی کی دور میں کسی سے بھی کوئی راز پوشیدہ نہیں سب جانتے ہیں کہ ان کے وجود ، طاقت اور حکمت عملیوں کی بنیاد کیا ہے۔ اور نہ ہی اس تاثر کو بدلنے کی کوششوں میں وقت، توانائی اورپیسہ ضائع کرنے کی کوئی ضرورت ہے بلکہ اس تاثر کو بہتر کرکے اپنی بنیادوں اور محسنوں کی ساکھ کو بہتر کرکے عوام کے دلوں میں محبت پیدا کی جاسکتی ہے۔
اور اس کے لئے پہلے سے ہی عبوری حکومت کے محدود اختیارات کی حدوں کوکافی حد تک وسعت دی جاچکی ہے اور اس کے لئے کسی طرح کی بھی نئی اصلاحات کی کوئی ضرورت ہے اور نہ ہی ان کے پاس اب عوامی مطالبات سے فرار کا کوئی بہانہ ہے۔ صرف موجودہ قوانین پر عمل درآمد کروانے کی ضرورت ہے۔ افسر شاہی میں اچھی شہرت ، تجربہ اور کارکردگی کی بنیاد پر انتظامی عہدوں پرتعیناتیوں کی ضرورت ہے ۔ ایسے لوگوں کو سربراہ بنایا جائے جو ملک و قوم کی خدمت کو ذاتی فائدوں پر ترجیح دیتے ہوں اور وہ افسر شاہی کے مافیہ کے ہاتھوں یرغمال بننے کئ بجائے ان کو کنڑول کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
مہنگائی، غربت اور بے روزگاری کی وجوہات میں معاشی بحران سے بھی زیادہ بد انتظامی اور بد عنوانی کا ہاتھ ہے۔ ایک ہی شہر کے اندر ایک ہی بازار میں ہر کسی نے اپنی مرضی کے نرخ لگائے ہوئے ہیں اور متعلقہ محکمے جنہوں نے نرخوں کو حکومتی تعین کردہ لسٹوں کے مطابق یقینی بنانا ہے وہ کبھی بازار میں نظر ہی نہیں آئے۔ اگر وہ کبھی کبھار بھی بغیر اطلاع کے کم از کم رو زمرہ کی اشیاء خوردو نوش کی نرخ اور ان کی کوالٹی کوچیک کرنے کی روٹین کو بنائے رکھیں تو دکانداروں پر چیکنگ کا خوف رہے اور وہ عوام کے ساتھ ظلم کرنے سے با ز رہیں۔ جس سے نہ صرف عوام کی جیبیں محفوظ ہوجائیں بلکہ ان کی صحت بھی بہتر ہو اور حکومت کی صحت پر اٹھنے والے اخراجات بھی کم ہوجائیں۔
بجلی کے بلوں پر احتجاج کے پیش نظر جس طرح سے گریڈ سترہ اور اس سے اوپر والے افسران کی مفت ترسیل کو ختم کرنے کا اعلان کیا ہے خوش آئند ہے اور اس پر عمل بھی ہونا چاہیے محض سابقہ حکومت کی کفائت شعاری کی پالیسی کی طرح کا سلوک نہیں ہونا چاہیے۔ اسی طرح سے عوامی دباؤ کی بنیاد پرباقی تمام مراعات کوبھی ختم کرکےبرابری کو ترویج دینا چاہیے تاکہ جب ان کی آسائشیں ختم ہوں تو ان کو عوام کی مشکلات اور تکلیف کا بھی احساس ہو کہ وہ کسی طرح سے زندگی گزار رہے ہیں۔
پاکستان میں حکومت کی رٹ کی کوئی کمی نہیں اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ آج تک آپ نے کبھی کسی ڈپٹی کمشنر، جج ، پولیس آفیسر، جرنیل، وزیریا بیورو کریٹ سے کسی کو بدتمیزی کرتے دیکھا ہے۔ یا کبھی ان کے اپنے کام رکتے دیکھے ہیں ۔ صرف مسائل عام عوام کے لئے ہی ہیں۔ ہماری افرادی قوت میں بے تحاشا صلاحیتیں ہیں مگر ان کا استعمال عوام کی خدمت کی بجائے مسائل کھڑے کرنے پر ہورہا ہے۔
انتظامی عہدوں پر بیٹھے اور ریاست کے اہلکاروں کے اثاثے اور آمدن میں مطابقت کو دیکھنے کی اشد ٖضرورت ہے اور ان کی سکروٹنی ہونی چاہیے کہ ان کے شاہانہ اخرجات کہاں سے پورے ہورہے ہیں بلکہ ان کے گھروں کی بھی تلاشی لی جانی چاہیے تاکہ قوم کی لوٹی ہوئی دولت قوم کو واپس ملے۔ کون نہیں جانتا کہ پاکستان کے ہر ترقیاتی ٹھیکے میں اوپر سے لے کر نیچے تک کمیشن چلتی ہے۔ اسے بند ہونا چاہیے۔
افسر شاہی کو کنٹرول کرنے کے لئے بھی ان کی نفسیات کو پیش نظر رکھ کر لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے۔ ان کی محدود سوچ اور اختیاراتی اجارہ داری کی سوچ کو خدمت کی طرف موڑنے کے لئے ان کی سوچ کو عوامی اختیارات سے ہی ضرب لگانی پڑے گی اور ان کے اندر ان کے اختیارات کوآئینی و قانونی اختیارات کی جوابدہی کے تابع لاکر یہ احساس پیدا کرنے اور اس کا یقین بٹھانے کی ضرورت ہے کہ ان کا کام بادشاہت نہیں بلکہ خدمت ہے اور ان کی تنخواہیں عوام کی جیب سے آتی ہیں۔ کسی ایک مولا جٹ کو نوکری سے فارغ کرکے جیل بھیج دیں سب ٹھیک ہوجائیں گے جیسے ہی ان کو اپنا عہدہ اور اختیارات خطرے میں لگیں گے یہ اپنی اصلیت کی طرف لوٹ آئیں گے ۔ لہذا ان کو اختیاراتی ڈسپلن میں رکھنا انتہائی ضروری ہوتا ہے۔
حکومت کو عوامی اعتماد حاصل کرنے کے لئے فوری طور پر تمام محکموں کے اندر تنخواہوں میں برابری اور حکومتی اخراجات میں کمی کردینی چاہیے اور ریاستی وسائل کی بنیاد پر بنائے گئے امتیازی سلوک کو فوری بند کر دینا چاہیے اورعوام کی داد رسی کے لئے سخت اقدام اٹھانے چاہیں
یہ تبدیلی کا سفر حکومت کو نچلی سطح سے شروع کرنا چاہیے۔ صوبوں کی اکائی ضلع کی سطح پر عوام کو ریلیف دے کر امن ، استحکام اور ترقی کا یہ سفر شروع کیا جاسکتا ہے ۔
صوبائی حکومتیں صرف ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں کیمرہ لگا دیں اور اس کا کنکشن ڈائریکٹ ایک ہوم سیکرٹری کے دفتر میں ہو اور ایک چیف منسٹر کے دفتر میں اور اسے یہ حکم دیا جائے کہ کوئی بھی سائل آپ سے ملنے آئے اس کو روکا نہیں جاسکتا ۔ آپ کو ہر حال میں اس کی داد رسی کرنی ہوگی۔دفتر کے باہر کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔ سارے معاملات خود بخود ہی ٹھیک ہوجائیں گے۔پنجاب جو آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے اس کے 42 اضلاع ہیں اور 42 مولا جٹوں کو کنٹرول کرنا اس صوبے کے چیف منسٹر کے لئے کوئی مشکل کام نہیں ۔ اسی طرح باقی اضلاع میں بھی کے پی کے کے 38، بلوچستان 36، سندھ 30، گلگت بلتستان 14، کشمیر 10 اور اسلام آباد 1ضلع ہے جو مجموعی طور پر 171بنتے ہیں ۔کیا اس ملک میں 171 ایماندار ، اہل اور قابل لوگ بھی موجود نہیں یا اتنےسے لوگوں کو بھی کنٹرول نہیں کیا جاسکتا۔ کچھ بھی ناممکن نہیں بس ضرورت ہے اخلاص اور نیت کی۔
ڈپٹی کمشنر کے پاس ایک ہی بہانہ ہوگا کہ میں کس طرح پورے ضلع کے سائلین کو ڈیل کر سکتا ہوں ۔ سادہ سا حل ہے کہ کسی بھی محکمے کے خلاف کوئی شکائت آتی ہے تو اس کو کہہ دے کہ اپنی کارکردگی ٹھیک کریں ۔ شکائت کا مطلب ہے کہ آپ کی کارکردگی ٹھیک نہیں۔ جب کارکردگی ٹھیک ہوگی تو شکائتیں خود بخود ہی رک جائیں گی۔ اور اگر شکایات نہیں رک رہیں تو اس کا مطلب ہوا کہ اس کے ضلع میں ماتحت محکموں میں لوگوں کے کام نہیں ہورہے اور وہ انتظام کرنے میں ناکام ہوگیا ہے اس کو تبدیل کر دیا جائے۔
اسی طرح ڈپٹی کمشنر اپنے دفتر میں بیٹھ کر اپنے ماتحت محکموں کے سربراہان کے دفاتر کو کیمروں کے زریعے سے مانیٹر کرے ۔ اس ٹیکنالوجی کے دور میں کوئی کام بھی مشکل نہیں بشرطیکہ ہمارے سیاستدان حل کرنے میں مخلص ہوں تو
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں