جس ملکی کی دو تہائی آبادی غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزار رہی ہو ۔ ملک بدحال معاشی صورتحال کا شکار ہو ۔ لوگ بھوک سے مر رہے ہوں تو اس ملک کے حکمران ، سربراہ یا مقتدر طاقتیں عالی شان محلوں میں نہیں رہتے ۔ مساوات ، محبت اور بھائی چارے کا تقاضہ یہ ہے کہ سب کا طرز زندگی ایک جیسا ہو ۔ سب کو ریاست کے وسائل تک برابر رسائی حاصل ہو جس کی بنیاد ضروریات ہوں ، بحثیت شہری برابری کے حقوق ان کی بنیاد کا پیمانہ ہوں ۔ جب انسان کو آسودگی حاصل ہوتی ہے اور اس کا رہن سہن شاہانہ ہوتا ہے تو اس کو دوسروں کی پریشانیوں کا احساس نہیں ہوتا ۔ جن کی بجلی کبھی جھمکی بھی نہ ہو ان کو ملک کے دور دراز علاقوں میں لوڈ شیڈنگ سے پریشان حال لوگوں کی تکلیفوں کا کیا اندازہ ہو۔جن کے پاس موجود شاہانہ زندگی کے وسائل ریاست کے خزانے سے موجود ہوں خواہ وہ بھاری بھرکم سودی قرضوں سے ہی حاصل ہورہے ہوں ان کو کیا احساس کہ لوگ کس طرح گزر بسر کررہے ہیں یادو وقت کی روٹی کو بھی ترس رہے ہیں ۔ اس وقت پاکستان کے سب سے بڑے مسئلہ غربت ، مہنگائی اور بیروزگاری کا سبب عوام نہیں بلکہ اس کا سبب اس ملک کے وسائل کے بلبوتے پر آسودہ حال لوگوں کے اعمال اور کارنامے ہیں ۔ جنہوں نے اپنے مفادات کے حصول کی کوشش میں بائیس کروڑ عوام کے مستقبل کو آج کی اس تاریک صورتحال میں دھکیلا ۔ ان کو یہ احسان نہیں ہوا کہ وہ اپنی تجوریاں تو بھر رہے ہیں مگر غریب عوام جن کی جیب سے ان کو آسودگی میسر تھی ان کا کیا بنے گا ۔ وہ عوام کو دوسرے درجے کا شہری سمجھتے رہے اور خود کو اس ملک کے تمام وسائل کا مالک سمجھتے رہے ۔ اب انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ حکمرانوں اور بشمول تمام سرکاری خزانے سے مستفید ہونے والے محکموں کو شاہی محلات سے باہر نکال کر ایک عام شہری کی طرز زندگی پر رہن سہن میں لایا جائے تاکہ ان کو احساس ہو کہ اس ملک کے غریب عوام کس کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ اور تب ان سے یہ امید وابسطہ کی جاسکتی ہے کہ وہ اس ملک کی تقدیر بدلنے کا کچھ کریں گے وگرنہ محض خالی دعووں اور دلاسوں نے تو ستر سالوں سے اس ملک کا یہ حال کردیا ہے۔ اب بھی ان کے عمل سے کوئی بہتری کا نشان نظر نہیں آتا۔ ابھی پچھلے ہفتے ہی سینٹ کے چئیرمین ، وائس چیئرمین اور کمیٹیوں کے سربراہان کی مراعات بارے قانون بنانے کی کوشش کی گئی ہے جس سے ان کی نیتوں کو خوب بھانپا جاسکتا ہے۔ ان کو تو اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان کو باہر کہیں سے قرض نہیں مل رہا ۔ اب یہ صورت حال ہوچکی ہے کہ ان کو کوئی سود پر قرضہ دینے کے لئے بھی تیار نہیں ۔ وگرنہ یہ کفائت شعاری کےتو محض کھوکھلے نعرے لگا رہے ہیں عملی طور پر سب صفر ہے۔ ان کو رضاکارانہ طور پر تمام سہولتیں اور مراعات ختم کردینی چاہیں اور اجلاس بھی قناتوں اور سائبانوں کے نیچے ہونے چاہیں۔ تمام سیکیورٹی اور پروٹوکول ختم کردینا چاہیے ۔ جان ، مال ، عزت سب کی برابر ہے ۔ اگر کسی کو اپنی جان اتنی ہی پیاری ہے تو کوئی مجبوری نہیں وہ اپنے گھر میں بیٹھے اور اپنے وسائل پر اپنی حفاظت کا بندوبست کرے۔ عوام کو ان کا درد محسوس کرنے والے ان کی حالت زار کو سمجھنے والے عوامی نمائندے چاہیں ۔جو باقی سرکاری محکوں کے لئے سادگی اور مساوات کی مثال قائم کرکے ان کے لئے ترغیب کا سبب بنیں اور ان کو برابری کے پیمانے پر وسائل سے مستفید ہونے کے لئے مجبور کرنے کا اخلاقی اور قانونی جواز بھی رکھتے ہوں ۔ وگرنہ محض نعرے تو کئی مہینوں سے پارلیمان کی عالی شان عمارت میں لگ رہے ہیں لیکن وہاں سے کوئی سادگی اور برابری کی مثال دیکھنے کو نہیں مل رہی ۔ قوموں کے مسائل باتوں سے حل نہیں ہوتے عمل سے ہوتے ہیں ، محنت سے ہوتے ہیں ۔ تعجب ہوتا ہے جب حکومت میں موجود قومی اسمبلی کے ممبران یا وزراء بڑے بڑے جلسوں میں بہت ہی اچھی باتیں کرتے ہیں ۔ کہ ایسا ہونا چاہیے ۔ یوں ہونا چاہیے ۔ ان سے کوئی یہ پوچھے کہ ملک و قوم کے اختیارات تمھارے پاس ہیں وسائل تمھارے حکم کے تابع ہیں تو پھر یہ انتظام و انتصرام کس نے کرنا ہے۔ اگر عمل کرنے والا کوئی ہو تو ایک دن کےانتظام سے ہم سورج کی حدت سے سولر سسٹم کے زریعے اپنی دن بھر کی ضرورت کو پورا کر سکتے ہیں اوررات کو مارکیٹوں کو بند کرکے تقریباًپانچ ہزار میگا واٹ کے سرپلس پر جاسکتے ہیں۔ مگر ہمارے حکمرانوں ترجیحات اگر عوام کی خدمت بنیں تو۔ یہ ایک توانائی کے متعلق مثال ہے ۔ آج دنیا میں جو نظام حکومت میں محکموں کا ماڈل ہے اس کا آغاز حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شروع کیا اور ان کا ایک مشہور واقعہ ہے۔ آپؓ کے غلام نے بازار سے گھی کا کنستر اور دودھ کا مشکیزہ آپؓ کے لیے 40 درہم میں خرید لیا۔ بعد ازاں غلام نے آپؓ کو یہ بتایا کہ آپؓ کا کیا ہوا عہد پورا ہو گیا اور وہ آپؓ کے لیے بازار سے گھی اور دودھ کا کنستر خرید لایا ہے، اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا فتصدق بهما، فانی اکره ان آکل اسرافا،کيف يعنينی شان الرعية اذا لم يمسسنی ما مسهم۔ (المنتظم، 4: 250 ترجمہ: ‘تم ان دونوں چیزوں کو خیرات کر دو کیونکہ مجھے یہ بات نا پسند ہے کہ میں اسراف کے ساتھ کھاؤں، مجھے رعایا کا حال کیسے معلوم ہو گا اگر مجھے وہ تکلیف نہ پہنچے جو تکلیف انہیں پہنچ رہی ہے۔ پاکستان کا اصل نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے اور اس کا نام اور اس کا آئین جو قرآن و سنت کے قوانین کو اس ملک کے نظام کا اساس مانتا ہے اور اس پر عمل کو یقینی بنانے کی ضمانت دیتا ہے وہ یہ تقاضہ کر رہا ہے کہ مساوات کو رائج کرنے کے علاوہ کوئی بھی پیمانہ اب قابل عمل نہیں رہا اور نہ ہی اس کے علاوہ موجودہ مشکلات کا کوئی حل تلاش کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی کوئی اس سے ہٹ کر کسی درجے کو رائج رکھنے کے جواز کا حق رکھتا ہے ۔
ہماری طرف سے
قوم حکمرانوں سے شاہی محلات خالی کرنے کا مطالبہ کرتی ہے ۔
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں