حکومت کی کفائت شعاری کا راز بے نقاب ہوگیا۔


ملک ڈیفالٹ کی طرف جارہا ہے اور ہمارے حکمرانوں کو اپنے مفادات اور مراعات کی فکر لگی ہوئی ہے۔باتیں کفائت شعاری کی کرتے ہیں اور عمل شاہانہ ہے۔ کفائت شعاری پر جو کمیٹی بنائی تھی وہ اب سوئی پڑی ہے اور اس کی سفارشات بھی شائد ردی کی ٹوکری کے سپرد ہوگئی ہیں۔

سیلریز اینڈ پریویلیج آف سینٹ ایکٹ 2023 کے نام سے ایک ایکٹ پاس ہوا ہے ۔ یہ ایکٹ نو صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کوپیش کرنے والے یوسف رضا گیلانی ، فاروق ایچ نائیک، عطاء الرحمان، ڈاکٹر شہزاد، اعظم نزیر تارڑ، فوزیہ ارشد، رضا ربانی، عبدالغفور حیدری  وغیر جیسے معززین شامل ہیں۔ یہ مراعات موجودہ اور سابق چیئرمین سینٹ کے لئے ہیں ۔اور سب سے زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ اس میں  تمام جماعتیں مشتمل اور متفق ہیں۔ اس کے چند چیدہ چیدہ  نکات درج ذیل ہیں۔  

بارہ ملازم ، آٹھ گارڈز، وی وی پی آئی سیکیورٹی اس کے علاوہ جہاں بھی وہ جائیں گےان وفاقی یا صوبائی حکومت سیکیورٹی دینے کی پابند ہوگی، اپنے اور اپنی فیملی کے سفر کے لئے جہازبھی مانگ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ سینٹ کی فنانس کمیٹی، جو چئیرمیں سینٹ خود بناتا ہے ، جو بھی فیصلہ کرے گی وہ مراعات دی جاسکتی ہیں۔

اسی ایکٹ کی دفعہ 21 ان کی رہائش پر 6 مستقل سیکیورٹی گارڈز اور 4 حکومت کی طرف سے اور اس کے علاوہ پولیس کی طرف سے بھی سیکیورٹی مہیا کی جائے گی ۔ اسی طرح سیکشن 16 کی رو سے فنانس کمیٹی بارہ تک پرسنل سٹاف  مستقل بنیادوں پر یا کنٹریکٹ کی بنیاد پر دے سکتی ہے۔پھر سیکشن 20 فنانس کمیٹی کو ان مراعات کو بڑھانے کا اختیار بھی دیتا ہے ۔ سالانہ آٹھ لاکھ تک اس کی حد رکھی گئی ہے مگر کمیٹی اس کو ضرورت کے مطابق بڑھانے کا اختیار بھی رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ سرکاری یا پرائیویٹ ہسپتال سے علاج  یا وہ گھر پر سہولت چاہتے ہوں تو اس کے لئے حکومت اخراجات برداشت کرے گی۔

سفر کے لئے وہ اگر چاہیں تو حکومت کے اخراجات پر حکومتی یا پرائیویٹ جہاز بھی وہ لے سکتے ہیں اور ان کا پروٹوکول ریاست کے ڈپٹی ہیڈ کا ہوگا۔ اور  وہ ایک سے چار ممبران تک ساتھ لے کر جاسکتے ہیں ۔ اسی طرح اگر سرکاری گھر میں رہیں تو ٹیلی فون اور گاڑیاں مفت ہونگی اوراگر اپنے گھر میں رہیں گے تو ڈھائی تین لاکھ تک کرایہ بھی ملے گا۔

اس سے پہلے پارلیمان نے اپنی توہین کے لئے قانون منظور کروایا تھا تاکہ کوئی ان پر بات نہ کر سکے۔  شائد ان کو عدلیہ کی عزت دیکھ کر رشک آیا ہو۔ظلم کی انتہا ہورہی ہے ۔ لیکن حکمرانو یاد رکھو یہ تمھاری  قانون سازیاں تمھاری ذہنی استعداد کی خمازی کر رہی ہیں اور تمھارے تمام تر دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں ۔ اور اگر آپ لوگوں نے اپنی ان غلطیوں کو نہ روکا تو یہ تمھاری اس بادشاہت کو بھی بہا کر لے جائیں گی ۔

قانون سازی کا معیار دیکھئے کہ قانون بنانے والے اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کر رہے ہیں ۔ پھر باتیں کرتے ہیں عدلیہ کی مراعات کی ۔ تو سن لو اس کے بھی آپ ہی ذمہ دار ہیں ۔ آپکو عوام کی نمائندگی کے لئے حکومت کا قلمدان دیا گیا ہے اور اگر آپ عوام کے مفادات کے لئے کام نہیں کرسکتے تو کسی کو بھی حکومت میں رہنےکا کوئی اختیار نہیں ۔ عوام کو مجبور نہ کرو کہ وہ تمھاری بادشاہت کو نوچ ڈالیں اور تمھارے یہ حفاظتی اقدامات دھرے کے دھرے رہ جائیں۔ اگر عوام کا احساس نہیں تو اس کائنات کے خالق کے غضب سے ڈرو جس کی کائنات سے نکلنا مشکل ہے ۔ کوئی اس کے ساتھ بغاوت نہیں کرسکتا۔

اور جو یہاں سے سب کچھ لوٹ کر باہر لے کر جارہے ہیں وہ یہ مت بھولیں کہ ان کو ان کا یہ مال و دولت کہیں بھی فائدہ نہیں دے سکے گا اور اس کی دنیا میں کئی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے بھی اپنی ریاستوں سے لوٹ کر دوسری ریاستوں میں جمع کیا ان کو  سب کچھ سے ہاتھ دھونا پڑے اور نہ ان کی عزت رہی اور نہ ہی ان کا مال کام آیا۔ ان کی نسلیں آج بھیک مانگنے پر مجبور ہیں اور بھوک ہڑتالیں کر رہی ہیں ۔ آپ سب سمجھتے ہیں میں کسی کانام لے کر رسوائی نہیں کرنا چاہتا اور یاد رکھو کہ  جہاں تم پنا ہ لیتے ہو وہ بھی جانتے ہیں کہ جو اپنے ملک اور عوام کے لئے مخلص نہیں وہ ان کے لئے بھی کبھی مخلص نہیں ہوسکتے ۔ ساری دنیا بے وقوف نہیں ہے اور یہ فطرت کا اصول ہے اور یہی انتقام ہے کہ انسان سب کچھ گنوا بھی بیٹھتا ہے اور اس کا حساب پھر بھی اسی کے ذمہ ہوتا ہے ۔

خدا را عوام کے پاس کوئی تو آپشن رہنے دیں کہ وہ آئینی انقلاب کی راہ سے اکتاہٹ محسوس نہ کرنے لگیں اور  جمہوریت اور سیاست کو ہی مسائل سے نکلنے کا زریعہ سمجھے رہیں اور قانون کو اپنے ہاتھوں میں لینے کی راہ پر چل نکلیں۔

عوام کی نمائندگی اگر آپ کو ملی ہوئی ہے تو اس کو غنیمت جانیں ایسا نہ ہو کہ یہ نمائندگی آپ کے ہاتھ سے نکل جائے  یا چھین لی جائے اور آپ ہاتھ ملتے رہ جائیں۔اور اس کا تجربہ آپ میں سے تمام جماعتیں  کر چکی ہیں مگر شائد آپکو اس سے وہ سبق نہیں ملا جس کا آج کے حالات تقاضہ کر رہے ہیں ۔

موجودہ معاشی حالات میں ان لوگوں کی ایک اس حرکت  نے صرف سیاستدانوں نہیں  بلکہ جمہوریت  اور انصاف سے بھی  عوام کا اعتماد اٹھا دیا ہے اور یہ تمھاری سیاسی قبر کے لئے کافی ہوگا۔عوام کو کفائت شعاری کے درس دئیے جارہے ہیں اور اپنا حال کیا ہے اس کا راز یہ ایکٹ کھول رہا ہے ۔

فضولیات اورعیاشیوں کے نام پر لوٹ کھسوٹ کو بند کر کے قوم کو ممکنہ ایک ہزار ارب کا تحفہ پیش کرتے ہوئے کفایت شعاری کا درس دیتے تو شاید اس کا اثر بھی ہوتا مگر پر عیش ماحول میں بیٹھے ہوئے پالیسی سازوں کو کیا خبر کہ عوام گزارہ کیسے کر رہے ہیں۔ ان کو تو صرف اپنی فضول خرچیوں اور عیاشیوں کے بند ہونے کی فکر نے پریشان کیا ہوا ہے۔ عوام کو ملکی اخراجات کا حقیقی مختصر جائزہ ہی پیش کر دیتے تو شاید تمہارے ضمیر کو ایک لمحے لے لئے ملامت کا سامنا ہو پاتا۔

انصاف اور مساوات کا آغاز سربراہان کے عمل سے شروع ہوتا ہے نہ کہ ان کے کھوکھلے دعوؤں سے جن کا پرچار 75 سالوں سے اور خاص کر پچھلے 5 سالوں سے ہو رہا ہے۔ جس قوم کے قسمت سازوں کو قیام پاکستان سے سفارش، رشوت اور بدعنوانی کی گھٹی سے لے کر کمیشن کی لت کی عملی تربیت سے آراستہ کیا گیا ہو تو پھر ان سے ایمانداری اور اصلاح کی امیدیں وابستہ کرنے سے بڑا بھونڈا پن نہیں ہو سکتا۔

اس قانون کو اگر ختم نہ کیا گیا بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ اب عوام کے پاس وقت ہے کہ ماضی کی تمام نا انصافیوں پر آواز اٹھائیں کہ ریاستی خزانے سے حاصل کردہ تنخواہیں،وضائف اور مراعات میں برابری کے علاوہ کوئی صورت قابل قبول نہیں ۔ خواہ وہ جج ہو، جرنیل ہو ، پارلیمنٹیرین ہویا بیوروکریٹ سب کے لئے برابر ہونا چاہیے۔  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں