عمران خان نے حکومت کو چیلنج کیا ہے کہ وہ دو تین ہفتوں کے دوران پی ٹی آئی کے جتنے لوگ توڑنا چاہتے ہیں توڑ لیں پھر الیکشن کروائیں اور عوام کا فیصلہ دیکھ لیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ جب حکومت سمجھے کہ پی ٹی آئی الیکشن کے قابل نہیں رہی تب الیکشن کروا لینا اور ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملک میں یہ کون سا قانون ہے کہ جو پہلے دہشت گرد قرار دیا گیا اگر وہ شخص پی ٹی آئی چھوڑنے کی پریس کانفرنس کر دے تو اس کا سب کچھ معاف ہو جاتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر ایک کا یہ بنیادی حق ہےکہ وہ اپنی آزاد مرضی سے کسی جماعت کو جائن کرنے یا چھوڑنے کا فیصلہ کرےاور یہی جمہوریت کا حسن بھی ہے مگر عمران خان کی یہ بات سن کر تو لگتا ہے کہ جمہوریت کے حسن کو میک اپ کرکے پیش کیا جارہا ہے یہ کوئی قدرتی حسن نہیں ہے ۔ عمران خان کو ان سیاستدانوں کے جانےکا غم تو ہوگا مگر لگتا ہے کہ کوئی پچھتاوا نہیں کیونکہ جب ان کو تحریک انصاف کے بانیوں کے جانے کا بھی غم نہیں ہوا تو ان میں اکثریت تو ویسے بھی آنے جانے والوں کی تھی جو ہمارے ملک کے برانڈڈ سیاستدان ہیں جن کا آزادی ہی برانڈ ہے وہ جب چاہتے ہیں اپنی جماعتیں بدلتے رہتے ہیں ۔ ان کی اصل پہچان ان کا برانڈ ہی ہے ۔ انکی کمپنی کا جہاں معاہدہ ہوجائے گا وہ وہیں اپنے برانڈ کی مشہوری کے لئے پہنچ جائیں گے ۔ ان کی کمپنی کا نام ہی کافی ہے اور شائد اسی لئے بقول عمران خان ان کی پریس کارنفرنس ان پر الزامات بھی دھو دیتی ہے ۔
پی ڈی ایم اور ان کے اتحادیوں کو حکومت تو مل گئی انہوں نے اس کی بھاری قیمت بھی ادا کی ہے مگر اب تحریک انصاف کی سیاسی غلطیوں سے ان کو حالات کے بہتر ہونے کی امید لگی تھی مگر جو سلسلہ چل رہا ہے اس سے ایک بار پھر حکومتی جماعتوں کے لئے مسئلہ کھڑا ہوسکتا ہے ۔ پاکستان کی سیاسی و پارلیمانی تاریخ میں جب بھی کسی سیاسی جماعت کو دیوار سے لگایا گیا،کچھ عرصہ بعد وہ جماعت اسی تیزی کے ساتھ دوبارہ ابھر کر سامنے آئی، جس کی روشنی میں ان کو سخت محنت طلب مینج کرنا پڑے گا کیونکہ پاکستان کی تاریخ کے اوراق جو منظر نامہ پیش کرتے ہیں ان میں تو پیپلزپارٹی کو دس سالہ طویل ضیا آمریت ختم نہ کرسکی۔اسی طرح ایم کیو ایم کے خلاف تاریخی کراچی آپریشن سب کے سامنے تھا،مگر نو سالہ مشرف دور میں ایم کیو ایم پوری طاقت کے ساتھ اقتدار میں واپس آئی ۔مشرف دور میں مسلم لیگ ن کو دیوار سے لگادیا گیا۔لاہور جیسے شہر میں مسلم لیگ ن کا جھنڈا اٹھانے پر پابندی تھی۔مگرپھر قدرت نے وہ منظر بھی دیکھا کہ جس نواز شریف کو آرمی سے نہ بننے کی وجہ سے ہٹایا جاتا رہا وہی آرمی کے چیف کا تکرر کرتا رہا۔
حکومت مینج ضرور کرے مگر گورننس کے فطری توازن کو نہ بگڑنے دے کیونکہ اس کا بگاڑکسی کو راس آ نہیں سکتا اور اس کی کئی مثالیں موجود ہیں جسے ہم مکافات عمل کہتے ہیں ۔ اگر کوئی غیر فطری مینجمنٹ کے زریعے سے توڑا یا جوڑا جائے گا تو اس کا جوڑ مضطوط ثابت ہو نہیں سکتا اور اس پر جب کبھی بھی دباؤ پڑے گا تو ٹوٹنا اسکا قدرتی عمل ہوگا۔ اور تحریک انصاف کو چھوڑنے والوں کی مثال بھی اس تسلسل کی ایک مثال ہے ۔
انسانی حقوق کی پامالی ، جمہوریت کے حسن کے میک اپ اور قانون کی حکمرانی کے غیر آئینی اور غیر قانونی بندوبست بھی اسی توازن کی بگاڑ کی ایک مثال ہے ۔ اگر آج موجودہ حکومت کے دور میں یہ سب کچھ ہوگا تو کل پھر ان کے پاس بھی ان خلاف ورزیوں پر آواز اٹھانے کا کوئی جواز نہیں ہوگا اور مکافات عمل کا لقمہ بننا پڑے گا۔ کل کے جلسے میں "رانا جی تُن کے رکھو" جیسے نعروں سے جو تاثر ابھر رہا ہے وہ کسی صورت بھی ایک جمہوری ریاست میں قابل قبول نہیں ہوسکتا۔
اس غلط روائت کو ختم کرنے کا ایک ہی حل ہے کہ اصولی سیاست کا دامن نہ چھوڑا جائے اور اپنی ذمہ داریوں کو ریاست کی امانت سمجھا جائے ۔ اختلافات اور حمائت کی بنیاد اصول ہوں ۔ آئینی اختیارات اور ریاستی وسائل ملک و قوم کی امانت ہوتے ہیں اور عوام جس کو بھی ریاست کے انتظامات کے لئے ان کے استعمال کی ذمہ داری سونپتی ہے اس کو انتہائی ایمانداری، خلوص اور جرات کے ساتھ ملکی مفادات کی خاطر استعمال کرنا چاہیے اور اپنے فرائض کی ادائیگی میں اپنے آپ کو جوابدہ بھی سمجھنا چاہیے ۔
حکومت کو 9 مئی کے سانحہ کے ذمہ داران کو سزا ملنی چاہیے مگر اس میں کسی بے گناہ کو کوئی نقصان بھی نہیں پہنچنا چاہیے۔اور دوسری طرف اگر تحریک انصاف اب بھی اپنی ماضی کی غلطیوں کو چھوڑ کر اصولی سیاست کا دامن نہیں پکڑتی تو پھر ان کو بھی نظام فطرت میں بگاڑ پیدا کرنے کے نتائج سے باخبر رہنا چاہیے ۔ریاست کا رویہ سمجھنا ہوگا۔ ماضی میں بھی انہوں نے پی ٹی وی اور پارلیمان پر حملہ کیا تھا مگر اس وقت ان سے نرمی برتی گئی جس سے شائد ان کے حوصلے بڑھ گئے تھے مگر اب وہ رعائت میسر نہیں ہے ۔ کل اعجاز الحق کا تحریک انصاف سے علیحدہ ہونا بھی قوی اشارہ ہے ۔
اس وقت ملک انتہائی سیاسی الجھنوں کا شکار ہے اور یہ الجھنیں پہلے سے معاشی بدحالی کے شکارملک کو مزید مسائل سےدوچار کرتی جارہی ہیں ۔ ہر کوئی اس وقت تذبذب کا شکار نظر آتا ہے ۔ کسی کو کوئی سمجھ نہیں آرہی کہ ان الجھنوں کو سلجھانے کے لئے کہاں سےآغاز کیا جائے کہیں سے کوئی سرا نظر نہیں آرہا اور جلدی بازی میں ہر کوئی ان الجھنوں کو گھمانے میں لگا ہوا ہے ۔اور یاد رکھیں الجھنیں گھمانے سے نہیں سلجھانے سے نکلتی ہیں۔سب کو مذاکرات کی میز پر بیٹھنا ہوگا اور ٹھنڈے دل
سے مسائل کا حل ڈھونڈنا پڑے گا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں