موجودہ پارلیمان اور اعلیٰ عدلیہ کے درمیان کشمکش کی
صورتحال محض چیف جسٹس صاحب کے انتظامی اختیارات کا عدالتی رائے پر ابھرتا ہوا غالب تاثر ہے ۔ انصاف صرف ہونا ہی
ضروری نہیں ہوتا بلکہ اس کا آئین، قانون اور جیورس پروڈنس کے تقاضوں پر پورا اترتا
ہوا دکھائی بھی دینا چاہیے ۔
انتظامی اختیارات کاعدالتی رائے پر اثر انداز ہونے کا کوئی
جواز نہیں بنتا اور نہ ہی اس طرح کے تاثر کے پیچھے کوئی دانشمندانہ سوچ جھلکتی
ہوئی نظر آتی ہے بلکہ یہ سوچ اعلیٰ عدلیہ کی ساکھ کو سبوتاژ کرتے ہوئے دکھائی دے
رہی ہے ۔
پارلیمان کے سپیکر کی طرف سے چیف جسٹس صاحب کے نام خط لکھنا کوئی معمولی بات نہیں بلکہ ایک اعلیٰ
ریاستی ، آئین کے خالق ادارے کے کسٹوڈین کی طرف سے اعلیٰ عدلیہ کے ادارے کے سربراہ
کے نام ایک یاداشت ہے جو خدشات اور تحفطات کا مجموعہ ہے جس میں اسی تاثر کی طرف اشارہ دیاگیا ہے ۔
اورچیف جسٹس کے نام اس طرح کے خطوط کا سلسلہ سپریم کورٹ کے اندر سے
چند قدم پر بیٹھے ایک سنئیر ترین جج جسٹس فائز عیسیٰ نے شروع کیا اور ان خطوط کے
زریعے سے اداروں کے اندرونی حالات کی مخبری کا سلسلہ شروع ہوا جس کا مرکزی متن بھی چیف جسٹس صاحب کے اختیارات
کا استعمال ہی تھا جس کی بنیاد پر بنائے جانے والے بنچز کا ذکر خاص کر ملتا ہے جن
پرکوئی توجہ نہیں دی گئی۔ یہ خطوط پر خطوط
لکھے جاتے رہے اور آخر کار ان خطوط میں موجود تحفظات عدالتی رائے تک پہنچ گئے اور
عدالت کے اندر گونجنے لگے جن کو خاموش کرنے کے لئے پھر اختیارات کا بے دریغ
استعمال ہوا اور خاص بندوبست نے جنم لیا اور آج حالات نے ریاست کو یہاں پہنچا دیا
ہے ۔
وہی ججز کے بنچز کے خلاف تحفظات کی آواز پارلیمان میں
گونجنے لگی ہے اور اس پر نہ صرف قراردادیں منظور ہوئیں بلکہ ان کےاندر فیصلوں کے
خلاف مذمتی قراردادیں بھی منظور ہوئیں اور جب ان کو سنجیدہ نہ لیا گیا تو آج پارلیمان
کے ہاؤس آف کسٹوڈین کی طرف سے ایک خط چیف جسٹس کے نام ان کی توجہ حاصل کرنے کے لئے
ان کے چیمبر کے دروازے پر بے چین کھڑا ہے ۔
آج میڈیا ہی نہیں بلکہ پارلیمان کے اندر عوامی نمائندے جو
زبان بول رہے ہیں وہ سپریم کورٹ کے خلاف نہیں بلکہ اس بنچ کے خلاف ہے جس کے بارے
تحفظات بخود سپریم کورٹ کے اندر موجود ہیں اور
پوری قوم اور پارلیمان کو عدلیہ کی رائے کی غیر جانبداری اور غیر شفافیت پر
بولنے کا جواز مہیا کر رہے ہیں ۔ سپریم کورٹ اگر تو اپنی ساکھ اور عزت کو بچانا
چاہتی ہے تو پھر اپنے اندر کے اختلافات کو معقولیت کے اندر سمونے کی کوشش کرنی
ہوگی جو ایک اجتماعی انتظامی اور اصولی رائے کی بنیاد پر ہی ہوسکتی ہے ۔
چیف جسٹس صاحب بھلے اپنے اختیارات کے استعمال پر کسی کو جوابدہ نہیں مگر ان کو جیورس پروڈنس کے
اصولوں کے تابع رکھنا انکی بحثیت ایک اعلیٰ عدلیہ کے سربراہ کے پہلی ترجیح ہونی
چاہیے تاکہ ان کے اختیارات اور فیصلوں پر کوئی آئینی، قانونی ،اصولی حتیٰ کہ
اخلاقی نقطہ بھی نہ اٹھ سکے اور کسی کو
ان کے اختیارات اور فیصلوں پر عملدرآمد کرنے یا کروانے میں کوئی امر مانع نہ آسکے ۔
پارلیمان کی سپرمیسی کو مانے بغیر نہ صرف ریاست کی رٹ کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے
بلکہ عدلیہ کے فیصلوں پر عملدرآمد بھی بے بسی کا شکار ہوسکتا ہے جیسا کہ حالات
اعلیٰ عدلیہ کے لئے پریشان حال نظر آرہے ہیں ۔ ان تمام مسائل کاحل اب صرف اور صرف
چیف جسٹس کے اختیارات کے استعمال میں غیر جانبداری، شفافیت اور دانشمندی کے عنصر کےواضح
نظر آنے سے منصوب ہے ۔
چیف جسٹس صاحب کو تمام آئینی ، ریاستی اور سیاسی مقدموں کی
کاروائیوں کو معطل کرکے پہلے اپنے ادارے
کے اندر پائی جانے والی کشمکش کی طرف توجہ
دینی ہوگی تاکہ وہ یہ ثابت کرسکیں کہ وہ ہی اس اعلیٰ عدلیہ کے غیر متنازع سربراہ
ہیں اور پورا ادارہ ان کے فیصلوں کے پیچھے کھڑا ہے ۔ عدالتی رائے میں اختلاف ایک
جیورس پروڈنس کا اصولی معاملہ ہے اور اس کا ادارے کے فیصلوں کی صحت پر کوئی اثر
نہیں۔ ان کو اپنے ساتھیوں کے تحفظات کو دور کرکے بنچز کی تشکیل کو غیر جانبدار اور
شفاف بنانا ہوگا یہ تب ہی ممکن ہے جب وہ
اپنے ادارے کا ایک فل کورٹ ریفرنس بلائیں اور تمام صورتحال اس کے سامنے رکھتے ہوئے
ایک اجتماعی رائے کے بعد اصول و ضوابط ترتیب دیں جن میں آئین ، قانون اور جیورس پروڈنس کے تقاضوں
سے ہم آہنگی ہواور پھر ان پر من و عن عمل کو یقینی بنانے کی تسلی کے ساتھ آگے بڑھیں۔
امید ہے چیف جسٹس صاحب حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اپنے
ادارے کی طاقت کو یکسو کرنے کی پوری نیک نیتی سے کوشش کریں گے اور ان کے ساتھی بھی
اس معاملے کو سمجھتے ہوئے ان کے ساتھ پورا
تعاون کریں گے تاکہ دوسرے ریاستی اداروں
کو بھی آئین و قانون پر عمل کرنے پر مجبور کیا جاسکے اور ان کے پاس کوئی جواز نہ
چھوڑا جائے کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلوں سے انحراف کرناتو درکنا اس کا سوچ بھی سکیں
۔
اگر ایسا نہ ہوا تو مبینہ طور پر یہ اطلاعات یا خبریں گردش
کر رہی ہیں کہ جن ججز کو انہوں نے اپنے اختیارات کے زریعے سے بنچز سے علیحدہ کیا
ہے وہ ان کی اس اختیار کی روشنی میں شائد
ان کے کسی بھی بنچ کا حصہ بننے سے معزرت کرنا شروع کر دیں ۔ اگر ان کے پاس
اختیارات ہیں تو دوسرے ججز بھی اختیارات سے خالی نہیں اگر ان کو ان کی مرضی کے خلاف کسی بنچ سے علیحدہ کیا جاسکتا ہے تو وہ
اپنی مرضی سے بھی بنچز سے علیحدگی کا ختیار رکھتے ہیں اور خاص کر ایسے حالات کے
بعد جن میں وہ کھلے عام چیف جسٹس صاحب کی
تکنیکی بندوبست کے زریعے سے انکی دبائی جانے والی عدالتی رائے پر اپنا ایک واضح
موقف پیش کرچکے ہیں کہ ان کے ساتھ کس طرح
کا برتاؤ کیا گیا ہے ۔
اسی طرح اگر سپیکر قومی اسمبلی کے خط جس میں انہوں نے اپنے
تحفظات پیش کئے ہیں اور پارلیمان کی توہین کی طرف اشارہ دیتے ہوئے عدلیہ کے فیصلوں
کو ان کی آئینی ذمہ داریوں میں دخل اندازی سے تشبیہ دیا اور عدالت عالیہ کی مخصوص
پنچز کے فیصلوں بارے اپنے تحفظات کا اظہار
بھی کیا ہے ۔ اگر اس خط کو بھی اپنے ہم منصب جج کے خطوط کی طرح اہمیت نہ دی گئی تو پھر پارلیمان بھی اپنے
آئینی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے اپنے
تحفظات کی گونج پہلے سے بھی بلند پارلیمان سے اٹھتی ہوئی ان کے
اداروے کے در و دیوار سے ٹکرا سکتی ہیں ۔ پارلیمان کی عمارت ان کے ادارے کی عمارت
سے زیادہ دور نہیں اور آئین میں پارلیمان اور عدلیہ دونوں کے اختیارات اور ان کا
استعمال واضح ہے ۔
سب کو اپنے آئینی اختیارات کو محض جذباتیت سے نہیں بلکہدانشمندی اورملکی و قومی فلاح کے جذبے کے تحت رکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا تاکہ ملک
و قوم کی ترقی و بقاء کو یقینی بنایا جاسکے ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں