یہ الفاظ ہیں سیف اللہ ، بلوچستان کے اس بچے کے جس نے اپنی
کوششوں سے وزیر اعظم سے ملاقات کی ۔ ایف سی والوں نے رکاوٹیں بھی کھڑی کیں مگر اس
کے اندر خواہش تھی اور جذبہ تھا جس نے اس کے لئے مواقعے پیدا کردئے اور اسے سیلاب
متاثرین کی مدد کے دورے پر گئے ہوئے وزیر اعظم سے ملاقات کا موقعہ ملا اور وزیر
اعظم بھی اس بچے اکرام اللہ کے جذبے سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور اس بچے کے
ساتھ گفتگو کو اپنے سوشل میڈیا پیج پر وائرل کر دیا ۔
اتنی سی بات تھی کی حکومتی اداروں سمیت میڈیا کا وہ بچہ
اکرام اللہ چہیتا بن گیا اور اسے چیف سیکرٹری نے خود بلا کر اس کی خواہش پوچھی کہ
وہ کہاں تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ تو بچے نے تین کالجز کے نام بتائے جن میں ایچی
سن لاہور ، کیڈٹ کالج ایبٹ آباد اور لارنس کالج مری جس میں اس کے اساتذہ کی بھی تجاویز
شامل ہونگیں ۔ محبت شامل تھی جس کی اس بچے
نے تعریف بھی کی ۔
اور بچے کے اعتماد کو دیکھ کر ہی لگتا ہے کہ بچے میں کچھ
بننے کی جستجو اور صلاحیت ہے ۔ اور اس میں یقیناً اس کے والدین اور اساتذہ کو
فراموش نہیں کیا جاسکتا لیکن یہ محبت اور محنت تو ہر بچے کے ساتھ ہی ہوتی ہے مگر
وہ کون سی چیز ہے جو منفرد ہوتی ہے ۔ یقیناً اس میں قسمت کا بھی کھیل ہے مگر اس
میں کوشش اور ارادوں کا بھی عمل دخل ہے ۔
اکرام اللہ ایک درجہ چہارم کے سرکاری ملازم کا بچہ ہے اور
جب اس نے اپنے والد کو بتایا کہ اس کی وزیراعظم پاکستان سے ملاقات ہوئی ہے تو اس
کے والد نے یقین نہیں کیا تھا کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے مگر جب اس کو لوگوں نے شہباز
شریف کے ساتھ وڈیو دکھائی تو اسے یقین آیا ۔ تو یہ بچہ کی ذاتی کوشش تو ہے ہی مگر
اس کے پیچھے اس کے اعتماد کو بڑھانے والے اور اس کو حوصلہ اور بولنے کی مشق کروانے
والے اساتذہ کا بھی ہاتھ ہے ۔
اور یہ بچہ ایسےنہیں کہ گھر سے اٹھا اور وزیر اعظم کے پاس
پہنچ گیا بلکہ اس کے پیچھے اس کے اساتذہ کی آٹھ سال کی محنت ہے جس نے آج اسے اس
شہرت سے نوازا اور اس کے دل کی آواز کو حکومت اور عوام تک پہنچایا ۔ اور اس بچے کی
باتیں سن کر لگتا ہے کہ اس بچے کی سوچ میں وہ پختگی اور تعلیم سے لگن بھی ہے جس کی
بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ وہ انشاء اللہ کچھ بنے گا۔ اس کی عمر ابھی تیرہ سال
ہوگی اور وہ آٹھویں کلاس میں پڑھتا ہے ۔
اس کو چیف سیکرٹری نے پوری امید دلوائی کہ وہ کوشش کریں گے
اس کو اس کی خواہش کے کالجز میں داخلہ دلوائیں اور اس بچے نے نہ صرف اپنی تعلعم
بلکہ اپنی طرح کے تمام بچے جن کو تعلیم کا شوق ہے کو مواقعے فراہم کئے جانے کی بات
کی ہے جو اس کی پختگی اور فکر کی گواہی پیش کر رہی ہے ۔
ایک اینکر کو انٹرویو دیتے ہوئے وہ اپنا ایک تیسری کلاس میں
تقریر کا بھی واقعہ سناتا ہے کہ ضلع کا ڈپٹی کمشنر چیف گیسٹ تھا اور اس نے اسے
انعام دیا تھا اور اس کی تعریف کی تھی یہ بتاتے ہوئے کہ اس کو بھی اسی عمر میں
اچھی تقریر پر ایک ہزار انعام ملا تھا اور آج وہ وہی ایک ہزار کا اتعام اکرام اللہ
کو دے رہا تھا ۔ اکرام اللہ کو بھی سی سی ایس کا امتحان پاس کرنے اور چیف سیکرٹری
بلوچستان بن کر صوبے کی خدمت کا شوق اور ارادہ ہے۔ اور ہماری دعا ہے کہ اللہ اس کو
اس کی جائز خواہشات میں کامیاب فرمائے ۔ جو ارادہ رکھتے ہوں اور کوشش بھی کریں تو
اللہ ان کی محنت کو ضائع نہیں کرتے ۔
مگر سوال یہ بنتا ہے کہ کیا جن بچوں کو تعلیم کا شوق ہے اور
ان کو مواقعے مہیا نہیں اور نہ ہی ان کو وزیر اعظم تک رسائی میسر ہے تو کیا ان کا
تعلیم حق نہیں ہے ۔ کیا ان کی خواہشوں کی تکمیل کو پورا کرنا حکومت کی ذمہ داری
نہیں ہے ۔ کیا جو سہولتیں اسلام آباد ، لاہور ، ایبٹ آباد ، کراچی ، پشاور یا
کوئٹہ کے بچوں کو میسر ہیں وہ دور دراز کے علاقوں میں رہنے والے بچوں کا حق نہیں
ہیں ۔
کیا اس ملک کے وسائل سے حاصل ہونے والے مواقعوں کو برابری
اور ضرورت کی بنیاد پر تقسیم نہیں ہونا چاہیے ۔ کیا اس ملک کی ایلیٹ کلاس کو جو
مواقعے میسر ہٰیں وہ ایک عام آدمی کے بچے کا حق نہیں ۔ یہ نصیبوں کی بات ہے یا
وسائل کی تقسیم میں اختیار رکھنے والے صاحب اقتدار لوگوں کے اعمال کا شاخسانہ ہے
کہ ایک ہی ملک کے اندر کچھ تو اعلیٰ معیار کے مواقعوں سے مستفید ہورہے ہیں اور کچھ
ان سہولتوں کو ترس رہے ہیں ۔
تعلیم اور صحت وہ بنیادی حقوق ہیں جو ہر شہری کو برابری کی
سطح پر میسر ہونے چاہیں اور اس میں امیر غریب ، بڑے یا چھوٹے کی کوئی تفریق نہیں
ہونی چاہیے ۔ اس ملک کے بچے اور بڑے تمام اس ملک کےآئین کی رو سے بنیادی حقوق میں
برابر کے شریک ہیں ۔
میرا سوال ہے کہ آج جو ایلیٹ کلاس بن کر اس ریاست کے تمام
وسائل کو ہڑپ کر رہے ہیں ان کو کس نے یہ حق دیا ہے کہ وہ اپنی طاقت اور اختیارات
کے بلبوتے پر تمام وسائل کو اپنے اور اپنی نسلوں کے لئے ہی مختص کرتے چلے جائیں
اور اس پر آواز اٹھانے والوں کو غدار سمجھا جائے ۔
آج جو لوگ جاگیروں اور سرکاری مراعات کی بنیاد پر اعلی
تعلیم ، صحت کی سہولیات اور شہانہ رہن سہن کو اپنا حق سمجھتے ہیں ان سے میرا سوال
ہے کہ کیا ان کی تقسیم کی بنیاد انصاف پر مبنی ہے ۔ کیا ان کو جو انعامات ، مراعات
اور وضائف ملے ہوئے ہیں یہ برابری اور شفافیت کی بنیاد پر ملے ہیں ۔ اور اگر ایسا
نہیں تو اس ظلم میں جو جو بھی شریک ہیں ان کو ایک دن جوابدہی کا سامنا کرنا پڑے گا
۔ اس ملک کے عام شہری کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کا حساب ان کو دینا پڑے گا ۔
اللہ کی لاٹھی بڑی بے آواز ہے اور اس کے فیصلے توازن کے
بنیاد پر ہوتے ہیں ۔ اس کے اصول کبھی نہیں بدلتے جن کی بنیاد ایک وزن پر قائم ہے
اور اس کے اصولوں کو کبھی چیلنج نہیں کرنا چاہیے ۔ اگر کسی کو ذمہ داریاں ملی ہوئی
ہیں تو وہ اس کا ایک امتحان ہے اس کی اجرت اس کو برابری کی بنیاد پر ملنی چاہیے
اور جواپنے جائز حصے سے زیادہ وصول کرتے ہیں وہ غریبوں کا حق کھا رہا ہے اور کسی
کے حق کو چھیں کر لینا فخر کرنے کا مقام نہیں بلکہ شرمندگی کا مقام ہے ۔
اور آخر میں ایک اور بات کرتا چلوں کہ ہم تعلیم کو ہی سب
مسائل کا حل تو سمجھتے ہیں جیسا کہ اس بچے اکرام کو بھی اس کے اساتذہ نے یہ سوچ دی
ہے مگر محض تعلیم جو آج ہم پھیلا رہے ہیں وہ ہمارے مسائل کے خاتمے کا زریعہ نہیں
بن سکتی کیونکہ اگر ہم غور سے مشاہدہ کریں تو اس وقت پاکستان کے وسائل پر قابض یہ
نام نہاد پڑھے لکھے ہی تو ہیں جو تفریق اور تقسیم میں ناہمواری کا سسب بنے ہوئے
ہیں ۔ بدعنوانی سے لے کر آئینی اور قانونی خلاف ورزیوں تک میں یہ نام نہاد پڑھے
لکھے ہی تو قصور وار ہیں ۔ تو پھر مجھے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری تعلیم بھی مسائل کو
حل کرنے کی بجائے مسائل کو پیدا کر رہی ہے ۔
تو تعلیم ہی صرف
ہمارے مسائل کا حل نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ کردار سازی بھی چاہیے اور وہ تعلیم
چاہیے جو یہ درس دیتی ہو کہ وسائل کی تقسیم برابری کی بنیاد پر ہونی چاہیے ۔ وہ
تعلیم چاہیے جو اخلاقیات اور جوابدہی کی سوچ کو پیدا کرتی ہو ۔ وہ تعلیم چاہیے جو
اپنی ذمہ داریوں اور دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کا سبب بنے ۔
آج معاشرے میں جو بھی نا انصافیاں ہورہی ہیں اور جو کچھ ہم
سوشل میڈیا پر ہر کسی کی ایسی تیسی ہوتے دیکھ رہے ہیں وہ مکافات عمل ہی تو ہے جو
وسائل کی غیر مساوی تقسیم کی بنیاد پر پچہتر سالوں سے پکھنڈ بازی جاری ہے اس کے
نتائج آج بھگتے جارہے ہیں ۔ ان نا
انصافیوں کا حصہ بننے والوں کو اس دنیا میں بھی خمیازہ بھگتنا پڑے گا اور آخرت میں
بھی اور وہ بھگت بھی رہے ہیں ۔ جب معاشرے
میں برابری کی بنیاد پر پالیسیاں نہیں بنیں گی تو پھر یہی کچھ ہوگا جو آج ہورہا ہے
۔ وسائل پر اختیارات کے بلبوتے پر جن لوگوں نے دوسروں کے حقوق ہتھیائے ہیں اب وہ
ایک دوسرے کو جیلوں میں ڈالنے اور عذتیں اچھالنے پر استعمال ہورہے ہیں جو ان کی
سزا تو ہے مگر ناکافی ہے ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں