ترقی ایک
لا متناہی جہاں کی منزل کو پا لینے کے لئے ایک دوڑ کا نام ہے ۔ جو کبھی نہ ختم
ہونے کا سلسلہ ہے۔ جس میں ہر کوئی اپنی سوچ اور ہمت کے مطابق دوڑ رہا ہے۔
اچھی بات
ہے دوڑنے اور اپنے آپ کو گرم رکھنے میں ہی زندگی کی لزت ہے ۔حرکت میں برکت ہے مگر
با مقصد ہونی چاہیے۔ دوڑ بھی نظم وضبط اور ربط کے ساتھ ہونی چاہیے۔ ہار جیت بھی
انکی ہی ہوتی ہے جو ایک خاص سمت میں نظم و ضبط اور ربط کا حصہ ہوتے ہیں ۔
باقی
دنیا کی ترقی اور ہماری ترقی میں یہی فرق ہے کہ وہ نظم وضبط اور ربط کے ساتھ ایک
خاص سمت میں بامقصد دوڑ رہے ہیں مگر ہم بغیر نظم وضبط ، بے ربط اور بے مقصد دوڑ
رہے ہیں ۔ قومیں ایک دوسرے کو ساتھ لے کر دوڑ رہی ہیں مگر ہم ایک دوسرے سے روپوش اور
بھاگ جانے یا ایک دوسرے کو پکڑنے اور پچھاڑ پھینکنے کے لئے دوڑ رہے ہیں۔
فرق صرف سوچ اورطریقہ کار کا ہے توانائیاں
ہم بھی صرف کر رہے ہیں مگر حاصل کچھ نہیں ہورہا ۔قومیں اپنی سمت کاتعین کرکے دوڑتی
ہیں اور ترقی کا تھوڑا یا زیادہ سفر طے کر رہی ہیں اور ہم ایک ہی دائرے میں دوڑتے
جا رہے ہیں۔
جسکا
کوئی مقصد ہو اور منزل کا تعین ہو اس کو اس دوڑ میں کبھی تھکاوٹ محسوس نہیں ہوتی
اس کا مقصد اور منزل کو پالینے کی جستجو ان کو کبھی سست نہیں پڑنے دیتے بلکہ انکے
ارادوں کو پختگی اور ہمت کو توانائی بخشے رکھتی ہیں۔ اور جو بے ربط و قائدہ اور
سمت کا تعین کئے بغیر بے مقصد دوڑتے ہیں وہ ترقی کی دوڑ کا حصہ نہیں بلکہ چھپن
چھپائی ، پکڑن پکڑائی کا کھیل کھیل رہے ہوتے ہیں اور ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے
ہوتے ہیں۔
اس
کائنات کا ایک نظام فطرت ہے اور اس سے مستفید ہونے کا راز اس کے قوانین کو سمجھ کر
اس پر عمل کرنے میں ہے۔ گو کہ اس وقت ترقی اور کامیابی کے نام نہاد دعوے دار بھی
محض علامتی اور دھوکے والی ترقی کی راہ پر عمل پیرا ہیں مگر ہم تو اس نقلی دوڑ میں
بھی بہت پیچھے ہیں۔
ہمارے
ارد گرد اس ترقی کو پانے یا کامیابی کے بے بہا راز ہماری راہنمائی کے لئے موجود
ہیں بشرطیکہ ہم ان کو سمجھنے کی کوشش اور سکت رکھتے ہوں۔ ہمارا انسانی بدن بذات
خود ایک روشن مثال ہے۔ ہمارے جسم کے اعضاء جب تک ایک ربط اور نظم و ضبط کے ساتھ
کام کرتے ہیں تو نتائج فائدہ بخش اور بدن سکون میں رہتا ہے۔ دل و دماغ ہاتھ ، پاؤں
، بازو ، اور ٹانگیں سب اعضاء اپنی اپنی جگہ پر رہ کر اپنا اپنا کام سرانجام دے
رہے ہوتے ہیں تو بدن طاقت میں ، توانا اور چہرہ روپ میں ہوتا ہے۔ رگوں میں بہنے
والا لہو اور روح جب تک بدن کا حصہ رہتے ہیں توانائی کو رواں اور خوبصورتی کو قائم
رکھتےہیں اور جب بہہ جاتا ہے یا ضائع ہوجاتا ہے روح پرواز کر جاتی ہے تو۔
توانائیاں اور رنگ وروپ بھی ساتھ ہی بہہ جاتے ہیں یا مانند پڑ جاتے ہیں ۔ اگر
اعضاء ربط سے ہٹ جائیں تو بدن کی کارکردگی اپنا فائدہ کھونے لگتی ہے۔ مگر تندرست و
توانا مثبت سوچ والا بدن خود بھی سکون میں ہوتا ہے اور دوسرے انسانوں ، مخلوقوں
بلکہ کائنات کے فطری نظام زندگی کے لئے بھی فائدہ مند ہوتا ہے۔
اسی طرح
اگر ہم انسان خاندان ، معاشرے ، قوم ، ملک یا دنیا کے اندر اپنی جگہ پر بدن کے
اعضاء کی طرح اپنے کام کو سر انجام دے کر اپنے خاندان ، معاشرے ، قوم ، ملک یا
دنیا کے بدن کو تقویت اور راعنائی بخشتے رہیں گے تو اس بدن کے مجموعی اعمال کے نتیجے
میں بے ہہا فوائد حاصل ہوتے رہیں گے اور بدن بھی سکون میں رہیں گے۔
اس سے اور آگے بڑھتا ہوں
اور اگر
ہم اس دنیا کے ان چھوٹے بڑے بدنوں کو فطری تقاضوں کے مطابق رکھیں اور چلائیں گے تو
توانائیاں اور لزتیں اپنی حقیقت سے آشناء ہو کر دوام اور دائم ہوجائیں گیں۔
اس
اکیسویں صدی میں دوڑ سے الگ ہونا تو ممکن نہیں البتہ اس دوڑ کو با مقصد ، درست سمت
اور فطری اصولوں کے مطابق بنا کر ترقی کی کامیاب دوڑ میں شامل اور بہترین نمونے کی
مثال ضرور قائم کی جا سکتی ہے۔ ذہانت ، اچھی سوچ اور دوسروں کو فائدہ دینے کا عمل
ہی وہ بنیادی عناصر ہیں جن سے انسان نہ صرف انسانیت کی بلندیوں پر فائز ہوتا ہے
بلکہ رہتی دنیا کے انسانوں تک حقیقی انسانی ترقی کا ایک نمونہ بن جاتا ہے ۔
اس دنیا کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے ۔ اس دنیا
میں بہت سارے کردار آئے جن کو اس کائنات کے خالق نے آج کے انسان کی نسبت زیادہ
توانائی اور صلاحیتیں دی ہوئی تھیں ، ان کی زندگیاں بھی آج کے دور سے لمبی تھیں ،
کئی قومیں آئیں اور جنہوں نے انسانیت کی فلاح کے لئے کام کیا ان کا نام آج بھی
زندہ ہے اور جنہوں نے اپنی خواہشات کی تکمیل اور بڑائی تکبر کا راستہ اپنایا ان کا
نام اور مثال انسانیت کے لئے عبرت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ۔ اور اس کی نشانیاں
انسانیت کو سبق دینے کے لئے آج بھی موجود ہیں ۔
ان انسانی تاریخ کی مثالوں میں کوئی بھی ترقی کا باب مادی ترقی کا نہیں بلکہ تمام کے تمام کامیابیوں کے باب انسانی سوچوں کے اعلیٰ ہونے اور انسانی فلاح کی سوچ اور عمل کو زندہ کرنے والوں کے ہیں ۔ جنہوں نے اپنی زندگی کے حقیقی مقصد کو سمجھ کر انسانیت کو اپنی علمی ارتقاء میں معاون ہوئے جن میں سر فہرست نام محمدﷺکی ہستی ہے جو آج بھی دنیا کی پر اثرترین شخصیت ہیں ۔
اسی طرح
بتدریج نیوٹن ، عیسییٰ علیہ السلام اور بدھا آتے ہیں جن کی تاریخ آج گواہی ان کی
سوچ ، تعلیمات اور عمل کی وجہ سے دے رہی ہے جس کا محور انسان اور انسانی کی بھلائی
تھی ۔ اور جو اس سوچ ، تعلیم اور عمل سے ٹکرائے وہ رہتی دنیا کے لئے عبرت کا نشان
بنے ۔
آج کی
مادی ترقی بھی ماضی کی طرح مکمل طور پر
سرمایہ دارانہ نظام اور فیشن کے نرغے میں آچکے ہیں اور ہر شے بشمول انسان کی زندگی
کم ہوتی جارہی ہے ۔ دکھلاوہ اور آگے بڑھنے کی دوڑ اور دوسرے کو پچھاڑنے کی سوچ نے
انسانیت کی پہچان کی خصوصیات کو پس پشت ڈال دیا ہوا ہے ۔ انسان کی بنیادی ضرورت
خوراک تک بناوٹی اور نقصان دہ ہوچکی ہے جس میں پورے کا پورا کاروبار اور ظاہری
دکھلاوے کے سوا کچھ بھی نہیں رہا ۔ اسی طرح انسان کے مسکن کو لے لیجئے ۔ بڑی بڑی
عمارتوں کے اندر فیشن کی حد عمر پانچ سال رہ گئی ہے اور اس کے بعد ریوونیشن لازمی
ہوچکی ہے کیوںکہ ہر چیز بوسیدہ فیشن ہو کر عجیب عجیب سی لگنی شروع ہوجاتی ہے ۔
ان تمام
مسائل کا حل سادگی اور فطرتی عوامل کی طرف واپس لوٹنا ہے جس کا خیال بذات خود ایک
دقیانوسی کی چھاپ کی زد میں آچکا ہے اور اس کی طرف توجہ دینا بھی نئی نسل وقت کا
ضیاع سمجھتی ہے مگر اس کا حل انسانی کی بنیاد ، فطرت اور سادگی کی طرف لوٹنے کے
علاوہ کچھ بھی نہیں ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں