ویسے
تو یہ عمران خان کا نیا اندازو بیان نہیں مگر شائد وقت تبدیل ہوگیا ہے یا پھر
قانون کا حرکت میں آنا مجبوری بنتا جارہا ہے جو ان کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ نے
توہین عدالت کا نوٹس لے لیا ہے ۔
عمران
خان صاحب کوئی عام آدمی نہیں بلکہ پاکستان کے سابق وزیراعظم اور ان کے بقول
پاکستان کی واحد قومی سطح کی جماعت کے سربراہ ہیں ۔ اور ان کا ایک خاتون جج کے
خلاف کاروائی کا بھرے جلسے میں کہنا کوئی قانونی رائے نہیں جیسا کہ بہت سارے قانون
دان اس کی خود ساختہ تشریح کررہے ہیں ۔ کہ انہوں نے قانونی ایکشن کی بات کی ہے ۔قانونی
ایکشن کی دھمکی اور وہ بھی ایک سابق وزیراعظم اور پارٹی کے سربراہ کی طرف سے اس طرح کا بیان دینا اتنا بھی سادہ معاملہ نہیں ۔
مگر
بہت سادہ ہیں میرے وطن کے قانون دان جو
سادگی میں کیا سے کیا کہہ جاتے ہیں ۔ ججز کے فیصلوں کے خلاف اپیلیں کی جاتی ہیں نہ
کہ ان کی ذات کو نشانہ اور جج کا نام لے کر اسے ڈرایا جاتا ہے ۔ اور
وہ ریمانڈ کے خلاف پہلے ہی اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپیل کر چکے ہیں ۔ اور ریمانڈ
کو دئے ہوئے بھی دو تین دن گزر چکے تھے جس پر جو بھی قانونی کاروائی کی جانی تھی
وہ ہوچکی تھی ۔ یہ فیصلے کے خلاف جانے کی بات نہیں بلکہ جج کے خلاف کاروائی کی بات
ہے ۔
بلکہ
اس سے یہ تاثر بھی ابھرتا ہے کہ وہ خاتون جج کو ریمانڈ دینے پر اس کے نتائج سے
خوفزدہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور اس سے
باقی عدلیہ کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ اگر وہ باز نہ آئے تو پھر ہمارے ارادے
خطرناک ہیں ۔ ان کے ماضی کے عمل سے یہ بھی تاثر لیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے عدلیہ
کو یہ باور کروایا ہے کہ وہ اقتدار میں آنے پر ان کے خلاف تادیبی کاروائی کا آغاز
بھی شروع کروا سکتے ہیں ۔ جس کی ماضی میں مثالیں بھی موجود ہیں ۔ انہوں نے سپریم
کورٹ کے جج قاضی فائز عیسیٰ پر سپریم
جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھی بھیجا تھا اور اب حکومت سے فارغ ہونے کے بعد اپنی غلطی کا اعتراف بھی
کیا ہے ۔
اس
کے علاوہ پولیس کو بھی دھمکی دی گئی ہے جس
پر پولیس کی طرف سے عمران خان کی سیکورٹی
سے معزرت کی مبینہ خبریں بھی گردش کرتی
رہی ہیں ۔اور اگر ماضی کے حوالوں کے ساتھ دیکھا جائے تو عمران خان اپنی نگرانی میں
اسلام آباد پولیس کے آفیسر پر تشدد بھی کروا چکے ہیں اور پھر اپنے حکومت کے دوران
ان مقدمات سے بری بھی ہوچکے ہیں ۔ اسی طرح ماضی میں بھی وہ عدلیہ اور الیکشن کمیشن
کی توہین کے بھی مرتکب ٹھہرے ہیں جس پر وہ معافی بھی طلب کر چکے ہیں ۔ پولیس کے
بارے انہوں نے اس بات کا ذکر کیا کہ اگر ان سے پوچھا جائے تو وہ کہتے ہیں کہ پیچھے
سے دباؤ ہے اور پیچھے سے بوٹ لگنے کا بھی
ذکر کیا ہے ۔ جس سے فوج کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے ۔
اگر
ماضی پر نظر دوڑایں تو فوج کی چونکہ سیاست میں مداخلت پائی جاتی رہی ہے اور عمران خان خود اپنے دور اقتدار میں کئئ
مثالوں کی طرف بھی اشارے دے چکے ہیں کہ ان سے کچھ فیصلے بھی کروائے جاتے رہے ہیں لہذا یہ معاملہ قابل
تحقیق ہے جس کی ذمہ داری حکومت پر آتی ہے کہ وہ اس طرح کے تمام الزامات کی تحقیق
کروایں اور الزامات بارے حقائق کو قوم کے سامنے لائیں ۔ کیونکہ یہ الزامات کا
معاملہ نیا نہیں اور تحقیقات کے بغیر الزامات سے چھٹکارہ ممکن بھی نہیں ۔ جب فوج
نے نیوٹرل ہونے کا دعویٰ کیا ہے تو پھر اب ان پر اٹھنے والے الزامات پر قانونی
کاروائی حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے ۔
ان
کے نیوٹرل ہونے کی دلیل ان پر عمران خان
کی طرف سے غیر جانبداری کے الزامات اور امداد کی اپیلوں سے بھی ثابت ہوتی ہے۔ اور ان کے اندازو بیان پاکستان کی معاشی صورتحال کے لئے انتہائی قابل
تشویش ہیں کیونکہ سیاسی عدم استحکام سے معاشی صورتحال کا بہت گہرا تعلق ہے ۔اداروں
کے ساتھ اس طرح کے حملوں اور برتاؤ کی
پہلے مثال نہیں ملتی جو قابل مذمت ہے ۔
اسی
طرح کے تشویشناک بیانات علی امین گنڈا پور اور کئی دوسرے کارکنان کی طرف سے بھی
آئے ہیں جو انتہائی جارحانہ ہیں جن سے حکومت اور اداروں کے خلاف اکسانے کے رجحان
کی طرف اشارہ ملتا ہے ۔ جس کا اسلام آباد ہائیکورٹ نے بھی اظہار کیا ہے ۔
عمران
خان نے دو دن قبل ہی عدلیہ کی آزادی متعلق سیمینار سے خطاب کے دوران عدلیہ کی
آزادی اور قانون کی حکمرانی پر زور دے کر کہا کہ جمہوریت کی مضبوطی کے لئے یہ
ضروری ہے کہ کوئی بھی قانون سے بالا تر نہ ہو اور عدلیہ کسی بھی شخصیت کے دباؤ میں نہ آئے تب ہی انصاف کا
بول بالا ہوسکتا ہے ۔ جس پر انہوں نے ویسٹرن ممالک کی مثالیں بھی دیں اور
سویٹزرلینڈ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہاں
قانون کی حکمرانی کی وجہ سے دنیا کا سب سے پر سکون ملک ہے اور دنیا سے سیاح وہاں
امن کی وجہ سے جاتے ہیں جس سے ان کو زرمبادلہ ملتا ہے ۔ ہمارا نادرن ایریا سویٹزرلینڈ سے بھی بڑا اور خوبصورت ایریا ہے
مگر ہم فائدہ نہیں اٹھا پا رہے ۔
تو
اب ان کو اسلام آباد ہائیکورٹ سے آج توہین عدالت کا نوٹس بھی ذاتی حیثیت میں پیش
ہونے کا جاری ہوگیا ہے جس میں ان کے لئے
بہتریں موقعہ ہے کہ اپنی ذات سے قانون کے سامنے سرنگون ہوکر مثال قائم کریں ۔
عدلیہ
کی توہین بارے بھی پاکستان کی ایک تاریخ ہے جس میں کئی سیاستدانوں کو سزا اور
نااہلی بھی ہوچکی ہے ۔ جبکہ تمام سیاسی جماعتوں کی طرف سے یہ خدشات اور تحفظات بھی
سامنے آتے رہے ہیں کہ عمران خان کے بارے عدلیہ نرم گوشہ رکھتی آئی ہے ۔ اور عدلیہ
پر بائیکاٹ کے زریعے سے دباؤ بڑھانے کی کوشش بھی کی گئی ہے ۔ اب بھی شائد یہ نرم گوشہ قاتم رہتا مگر انہوں نے اداروں کے ساتھ چھیڑا چھاڑی معمول بنا لیا ہے۔
اب
دیکھتے ہیں کہ اسلام آباد ہائیکورٹ اس معاملے کو کس طرح لیتی ہے اور اپنی ماتحت
عدلیہ کو اختیارات کے آزادانہ استعمال میں اعتماد بحال کرنے کی خاطر کیا اقدامات
اٹھاتی ہے ۔
اس
میں کوئی شک نہیں کہ جب تک ادارے آزاد ، غیر جانبدار اور خود مختار نہ ہوں ریاست
کے اندر قانون کی حکمرانی ، انسانی حقوق کی پاسداری اور مضبوط جمہوریت کا خواب
نہیں دیکھا جاسکتا ۔ مگر ہمارے حکمرانوں کو جب اقتدار میں ہوتے ہیں تو اس کا خیال
کم ہی آتا ہے اور جب وہ خود اس طرح کی
کاروائیوں کا شکار ہوتے ہیں تو پھر ان کو سب کچھ یاد آجاتا ہے اور وہ اس کے پرچار
میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ۔ لیکن دور اقتدار میں اکثر ان کو اس طرح کی اصلاحات فراموش ہی ہوجاتی
ہیں ۔
مگر
رانا ثناءاللہ نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ
شہباز گل کے معاملے میں تحقیقات کروایں گے اور ان کی حکومت اس طرح کی
کاروائیوں پر یقین نہیں رکھتی لیکن اس کا فیصلہ تو وقت ہی کرے گا کہ وہ اپنے دعوے
میں کتنے مخلص ہیں ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں