ہماری سیاست کئی سالوں سے جس نہج پر چل رہی تھی
وہ شائد اب ممکنات سے آگے بڑھتی دکھائی دے رہی تھی اور سہولتیں کمزوری محسوس ہونے لگ
گئی تھیں ۔ جرات اپنی حدیں عبور کرکے غلط فہمیوں میں سول نافرمانیوں کی طرف اور
جمہوریت کی عار میں ملکی سالمیت کی ڈومین کو متاثر کرنے کی کوششیں جاری ہوچکی تھیں
۔
اس کی کیا وجوہات ہیں یا یہ کس کی ایما پر ہورہا
تھا یہ فیصلہ تو تاریخ کرے گی مگر ملکی سیاسی صوتحال سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں
کہ ہر کوئی محتاط لگ رہا ہے ۔ سیاسی وفاداریاں اپنا رنگ بدلنا شروع ہوگئی ہیں جس سے
معاملہ سنجیدہ ہونے کی طرف شواہد مل رہے ہیں ۔
شہباز گل کی گرفتاری کے بعد اے آر وائی نے بھی
مذمت کردی اور تحریک انصاف کے سربراہ نے بھی گرفتاری کی مذمت تو کی ہے مگر شہباز گل کے بیانیے
پر اپنا موقف واضح نہیں کیا ۔ تحریک انصاف کا ٹرولنگ ونگ کی طرف سے اس پر وضاحت کی بجائے
اپنے مخالفیں کے ماضی کی بیان بازیوں کی تشہیر کے زریعے سے جواز ڈھونڈنے کی کوشش
کی جارہی ہے ۔ جو ابھی بھی سمجھتے ہیں کہ وہ قانون کی پہنچ سے دور ہیں وہ تو اس
طرح کے ہتھکنڈے استعمال کررہے ہیں مگر جن کو قانون کا بدلتا رنگ نظر آرہا ہے ان کا
سافٹ وئیر بدلا بدلا لگ رہا ہے ۔
تحریک انصاف کا ایک دبنگ سپوک پرسن گرفتار ہوگیا
ہے جبکہ دوسرے ان کے بیان کو جماعت کا بیانیہ ماننے سے انکاری ہوگئے ہیں بلکہ تاثر حیران کن صورتحال سے دوچار ہے ۔ جناب محترم فواد چوہدری صاحب نے تو شہباز گل کی
بجائے خود اور حبیب کے تحریک انصاف کا سپوک پرسن ہونے کا اعلان کرتے ہوئے عوامی
رائے کو بدلنے اور حکومت کو تسلی دینے کی ناکام کوشش کی ہے کہ وہ یہ سمجھ لیں کہ
شہباز گل تحریک انصاف کا سپوک پرسن ہے ہی نہیں ۔
مگر حکومت ، قانون اور انصاف اتنا بھولا بھی
نہیں کہ جب حساب چکانے کا وقت آیا ہے تو وہ بھول بھلیوں میں پڑ جائے ۔ کون نہیں
جانتا کہ شہباز گل ہی عمران خان کو پرنسپل سیکرٹری تھا مگر شائد اب اس کی قربانی
کے بعد ان کو احساس ہوا ہے کہ یہ قربانی تو قانونی طور پر جائز ہی نہیں تھی
تو انہوں نے اپنے آپ کو محفوظ کرنے کی کوششیں شروع کردی ہیں ۔ لیکن شائد وہ بھول
گئے ہیں کہ اس طرح جان چھڑوانے کی بجائے جان مزید پھنسنے کا خطرہ ہے ۔
جس کا آغاز یوں ہوگیا ہے کہ مبینہ طور پر یہ
خبریں بھی گردش کررہی ہیں کہ شہباز گل بھی تحریک انصاف اور قائدین کی نیت کو بھانپ
گئے ہیں اور انہوں نے اپنے آپ کو بچانے کے لئے کچھ کچھ سچ اگلنے شروع کردئیے ہیں ۔
اور اس طرح تحریک انصاف لگتا تھا کہ جو خود کو اداروں کو بلیک میلنگ کے زریعے سے
فوائد اٹھانے کی کوشش کررہے تھے اب دفاعی صوتحال سے دوچار ہیں ۔ ابھی واضح صورتحال
تو اس وقت سامنے آئے گی جب شہباز گل اپنا جوڈیشل بیان ریکارڈ کروایں گے ۔
اسی طرح کچھ اور خبریں بھی گردش کررہی ہیں تحریک انصاف کو سہولیات کا زریعہ بننے والے صحافت
پیشہ لوگ بھی پریشان پریشان ہیں اور ریسکیو کے طریقے ڈھونڈنے کی کوشش میں لگ گئے
ہیں جن میں چند جیسا کہ ارشد شریف کے بارے یہ بات چل رہی ہے کہ وہ پشاور ائیرپورٹ
سے دبئی کی طرف روانہ ہونے میں کامیاب ہوگئے ہیں ، اپنے تاؤ پیج کھینا شروع ہوگئے ہیں ۔ جس سے لگ رہا
ہے کہ سیاسی تھرما میٹر دردہ حرارت کے بدلا بدلا ہونے کا اشارہ دے رہا ہے ۔
تو یوں اب پاکستان کی سیاست میں ایک نئی لہر چل پڑی ہے اور ماضی کی تاریخ کے پیش نظر جیسے جیسے ضرورت پڑے گی نئے نئے انکشافات اور
شواہد نیند سے بیدار ہونا شروع ہوجائیں گے اور اگر تو کہیں سے ریسکیو کی کوشش
شروع ہوگئی تو پھر کئی کردار محفوظ راستہ ملنے سے اپنے اپنے مستقبل کی پناہ گاہوں
کی طرف روانہ بھی ہوسکتے ہیں لیکن اس کا مکمل واضح منظر نامہ آہستہ آہستہ سامنے
آئے گا ۔
پرویز الہی صاحب کی بیانات بھی اس بات کی
گواہی دے رہے ہیں کہ ان کو صورتحال کا معلوم ہونا شروع ہوگیا ہے ۔ جیسا کہ میں نے
اپنے پچھلے کالم یہ کہا تھا کہ وہ ایک منجھے ہوئے اور وضعدار سیاستدان ہیں ان سے
عثمان بزدار والی سیاست کی توقع نہیں کی جاسکتی تو وہ اشارے آنا شروع ہوگئے ہیں ۔
ان کو حکومت سازی کی یقین دہانی یک طرفہ نہیں بلکہ متعدد طرفہ ہوسکتی ہے لہذا ان
کو کسی بھی طرف سے بلیک میل نہیں کیا جاسکتا بلکہ وہ اس وقت پاکستان کی سیاست کے
دھارے کو بدلنے کا اہم مہرہ ہونگے ۔ ان کی سیاست کو دیکھ کر پاکستان کی سیاست کے
اتار چڑھاؤ اور بدلتے رنگوں کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔
تحریک انصاف نے اپنی پالیسی کی وجہ سے فی الحال
تمام زرائعے ہونے کے باوجود اپنے آپ کو مفلوج کر لیا ہے میں تحریک انصاف اورعمراں
خان کو یہ ان کے رویے اور مواقعوں کے بارے اپنی سیاسی سوجھ بوجھ اور تجربے کی
روشنی میں آگاہ کرتا رہا ہوں ۔ مگر انہوں نے کیا معلوم کن تسلیوں یا وژن کی بنیاد
پر جارحانہ سیاست کو جاری رکھا ہوا تھا جس کی پاکستانی قومی ، اخلاقی اور سیاسی
اقدار میں جگہہ نظر نہیں آرہی تھی ۔
اب تحریک انصاف کے بارے کئی نئے انکشافات اور
الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد سے ان کے مطالبات میں بھی وہ پہلے والی شدت نہیں رہی ۔
وہ اپنی انتخابی کمپین کو تو جاری رکھے ہوئے ہیں مگر نئے انتخابات کا مطالبہ جیسا
کہ میں نے پچھلے کالم میں بھی کہا تھا کہ ان کے قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں
حصہ لینے کے فیصلے سے سردمہری کا شکار ہوتے جائیں گے ۔
معاشی صورتحال کا بہتر سمت میں متحرک ہونا بھی اس بات کا اشارہ دے رہا ہے کہ کاروباری طبقے کا اعتماد بحال ہورہا ہے اور عالمی سطح پر بہتری بھی آنا شروع ہوگئی ہے ۔ اور نواز شریف کی واپسی کی خبریں بھی اسی تبدیلی کا حصہ ہیں ۔
اب یہ افواہیں بھی گردش کررہی ہیں کہ عمراں خان نواز شریف سے بے نظیر اور نوازشریف کے میثاق جمہوریت طرز پر کوئی معاہدہ کرنے
کی کوشش میں ہیں مگر وہاں سے انکار ہوگیا ہے اور وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ ان پر
اعتماد نہیں کیا جاسکتا ۔ میں عمران خان کے سیاسی رویہ کی طرف اشارہ بھی کرتا رہا
ہوں اور اب ان کا اپنا رویہ ہی ان کی سیاست کو بچانے میں سب سے بڑی رکاوٹ بنتا
جارہا ہے جو انہوں نے حزب اختلاف کی جماعتوں اور اداروں کےساتھ اپنا یا ہوا تھا ۔
اب امید کی جاسکتی ہے کہ پاکستان کی سیاست سنجیدگی کی طرف بڑھے گی اور موسمی کردار اپنے ٹھکانوں کی طرف بڑھنے کے لئے متحرک نظر آنے شروع ہو جائیں گے ۔ اور ایک دفعہ پھر سے جمہوریت کو توانا کرنے کا موقعہ ابھرتا ہوا نظر آرہا ہے ۔ اب یہ سیاستدانوں پر منحصر ہے کہ وہ اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ، جمہوریت کو درپیش خطرات کو کم کرنے یا ختم کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں مگر موجودہ حکمت عملیوں سے تو اس کے ابھی تک واضح خدوخال نظر نہیں آرہے ۔ لیکن امید ابھی موجود ہے کیونکہ مجبوراً ہی سہی جمہوریت کی ضرورت کا احساس انگڑائیاں لیتا ہوا نظر آرہا ہے ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں