چودہ اگست کا دن ایک خواب کی تعبیر ہے(1)
ہماری غلامی کے ایک نئے دور کا آغاز آزادی کا
ہنی مون منانے سے بھی پہلے شروع ہوگیا تھا جب ہمارے محسن عالمی مالیاتی
اداروں کے باہر کشکول ہاتھ میں لئے قطار میں لگ گئے تھے ۔ پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی
نے یہاں آکر ہماری قسمت کو خریدا اور اب ایک آزاد ریاست کے طور پر ہم اپنی آزادی
کو رہن رکھنے خود ان کے پاس پہنچ گئے ۔
آج ہماری حالت یہ ہے کہ ہم بھاری سود اور سخت
شرائط پر قرضہ کے حصول کو ہی اپنی ساری توانائیوں کا شاخسانہ سمجھتے ہیں ۔ آج
ہماری قابلیت کے اعلیٰ ہونے کا انحصار حصول قرض ہے تو اندازہ لگا لئجیے ہماری آزاد
اور خود مختار سوچ کا ۔ ہمارے قومی مالیاتی ادارے اپنی آزاد سوچ کے ساتھ کوئی
پالیسی نہیں بنا سکتے ۔ یہاں تک کہ قرض میں لی گئی رقم بھی ہم اپنی مرضی سے
استعمال نہیں کرسکتے ۔ اس سے بڑھ کر شرمناک غلامی اور کس کو کہتے ہیں ۔ اور ہمارے
موصوف معاشی ماہرین آج قرضوں کے حصول کو ناگزیر سمجھتے ہی نہیں بلکہ ایمان کی حد
تک یقین بھی رکھتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب ہم اس چنگل میں اس طرح سے جکڑے جا
چکے ہیں کہ ہمیں پچھلے قرضوں کی قسطیں دینے کے لئے نئے قرضے لینے پڑتے ہیں اور یوں
یہ قرضوں کی ترقی کا عمل پوری وسعت کے ساتھ جاری و ساری ہے ۔
جب ہم آزاد معاشی پالیسی نہیں بنا سکتے تو پھر
حقیقی آزاد ریاست کہنا اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے علاوہ کچھ نہیں ۔ ایک بات اور جو
مشاہدے میں آتی ہے وہ یہ ہے یہاں افراد ریاست سے زیادہ مضبوط نظر آتے ہیں ۔ جس طرح
پرصغیر میں اپنی وفاداریوں کے بدلے نوازشات لے کر ایک قانونی شکل کے تحت اپنے
آقاؤں کے سردار غلاموں نے اپنی ہی قوم کو یرغمال بنا لیا اسی طرح آزادی کے بعد اسی
ڈگر پر چلتے ہوئے صاحب اختیار ، صاحب اقتدار قومی وسائل کی تقسیم میں نقب زنی لگا
کر اس کو قانونی تحفظ فراہم کرتے رہے اور آج نوبت یہ آن پہنچی ہے کہ ایک ریاست کے
اندر دو ریاستیں بن چکی ہیں ۔ عوام غریب ہوتی چلی جارہی ہے اور مراعات یافتہ طبقے
کی حوص پوری ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی ۔
معاشروں کے اندر مساوات ہی وہ بنیادی اثاثہ ہوتا
ہے جو عوام کے اندر خود اعتمادی ، انصاف پر اعتماد اور اندرونی و بیرونی خطرات کے
خلاف ڈھال بننے کے جذبے کا موجب بنتا ہے ۔ اور جب مساوات نہیں رہتی تو پھر معاشرے
تذبذب کا شکار ہوجاتے ہیں ۔
مفاد پرست طبقوں کی ان ناانصافیوں نے معاشرت ،
سیاست ، حکومت اور صحافت سب کچھ تباہ کردیا اور اب صورتحال یہ ہےکہ لٹ مار کا ایک
بازار لگا ہوا ہے ہر کوئی ایک دوسرے کو لوٹ رہا ہے ۔ ہر کوئی بدعنوانی کے سرکل میں
گھوما جارہا ہے ۔ ایک طرف سے لوٹ رہا ہے تو دوسری طرف سے وہ لوٹا جارہا ہے ۔
اس ناانصافی در ناانصافی کی پہلی وجہ تو
ناانصافی ہی کی پیداوار وہ طبقہ ہے جن کو اپنے مفادات سے غرض ہے اور ان کو کوئی
بھی دور ہو ، آمریت کا ہو یا جمہوریت کا وہ اس کا حصہ رہے ہیں اور اپنے مفادات کے
تحفظ کے لئے کام کرتے رہے ہیں ۔
دوسری وجہ ہماری سوچ ہے جو قومی نہیں بن سکی جس
کا میں اکثر ذکر کرتا رہتا ہوں جو قوموں کے عوامی انقلاب کا سبب بنا کرتی ہے اور
ان ناانصافیوں کے خلاف ایک ڈھال کی بنیاد کا کام دیتی ہے ۔ ظلم کے خلاف للکار بن
کر اٹھتی ہے اور عوامی نمائندوں اور حکومتوں کے اندر جوابدہی کا خوف بٹھا دیتی ہے
اور بڑے بڑے آمر حکمرانوں کو ناکوں چنے چبوا دیتی ہے ۔ اور یوں ملکوں کے نظام حکومت
درست سمت چل پڑتے ہیں ۔
اس کے علاوہ ذیلی وجوہات میں احتساب کے عمل کا
کمزور ، غیرشفاف اور جانبدار ہونا ہے جس سے انصاف کی بجائے ناانصافیوں کو مزید
تقویت ملتی ہے ۔ اس کے علاوہ وہ قومی بے وقوفیاں ہیں جن کا ہم اکثر پرچار تو کرتے
ہیں مگر ان کا سدباب نہیں کر سکے اور بار بار ان ظلمتوں کا شکار ہوتے رہے حتیٰ کہ
یہ آج بھی جاری ہیں ۔
جھوٹ کی سیاست نے اس ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا
کر دیا ہے ۔ جس طرح سے آج سوشل میڈیا پر ملکی اداروں کو نشانہ بنا کر بدنام کرنے
کی کوشش کی جارہی ہے انتہائی قابل مذمت ہے ۔ ماضی میں بھی جھوٹے بیانیوں سے عوام
کو گمراہ بنا یا جاتا رہا ہے مگر موجودہ دور کی سوشل میڈیا کی تباہیوں نے تو حد ہی
کر دی ہے ۔
ایک نظریاتی ریاست کے اندر اگر آج بھی سیاسی
قیادت جھوٹ کا سہارا لے رہی ہو تو پھر حالات کا بدلنا ابھی حقائق سے بہت دور ہے ۔
اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ ابھی ہماری قوم اس قابل نہیں ہوئی کہ اچھی قیادت مہیا
کر سکے ۔ اور نہ ہی وہ صلاحیتیں رکھتی ہے کہ اچھے اور برے کی تمیز کرکے بہروپیوں
کی حوصلہ شکنی اور جھوٹ کی سیاست کا خاتمہ کر سکیں ۔
ہمیں یہ ملک چونکہ بغیر محنت اور قربانیوں کے مل
گیا ہے اس لئے ہمیں آزاد ریاست کی اہمیت کا اندازہ نہیں اور جنہوں نے محنت اور
قربانیاں دی ہوئی تھیں وہ اب رہے نہیں اور نہ ہی ہم نے ان کے ساتھ اوران کے نظریے
کے ساتھ وفا کی ہے ۔ اگر کسی نے آزادی کی قیمت اور اہمیت کا اندازہ لگا نا ہے تو
کشمیریوں ، برما اور فلسطین کے مسلمانوں سے پوچھیں ۔
ہمیں یہ ملک بہت سی جانوں کا نذرانہ دے کے ملا ہے لیکن ملک ہمیشہ لٹیروں کے ہاتھ لگا رشا
جواب دیںحذف کریںآپکے تبصرے کا شکریہ ، آپ نے صحیح فرمایا ، جب تک عوام کو ان لٹیروں کی پہچان نہیں ہوگی اور وہ ان کا سدباب نہیں کریں گے اس وقت تک بہتری کی امید نہیں کی جاسکتی ۔
حذف کریں