پنجاب کے ضمنی الیکشن کی اہمیت کو نظر انداز
نہیں کیا جاسکتا ۔ ظاہراً تو مسلم لیگ اور
تحریک انصاف کے درمیان مقابلہ تھا اور پنجاب میں اگلے الیکشن کی ایک ریہرسل تھی
لیکن در اصل یہ موجودہ حکومت اور سابقہ حکومت کے درمیاں انتخابات تھے ۔ دونوں طرف
سے بیانیوں کی ایک جنگ تھی دونوں ہی عوامی مینڈیٹ کے دعویدارتھے ۔ اس الیکشن سے
پاکستان کے سیاسی مستقبل پر گہرے اثرات مرتب ہونگے ۔ کوئی سمجھے یا نہ سمجھے نتائج
سے عوام نے اپنے مستقبل کا تعین کا دیا ہے
۔
اسے اگر پنجاب کے بارہ کروڑ عوام کا فیصلہ سمجھا
جائے تو مبالغہ آرائی نہیں ہوگی ۔ اس سے یہ بھی واضح ہوا ہے کہ عوام اب اصل
جمہوریت چاہتے ہیں جس کا بہرحال تاثر تحریک انصاف کی طرف ہی جا رہا تھا ۔ تین
باتیں واضح ہوگئی ہیں ایک تو عوام جیسے میں نے پہلے بھی کہا جمہوریت چاہتے ہیں اور
دوسرا انہوں نے لوٹوں کو تسلیم کرنے سے اندار کردیا ہے اور تیسری بات یہ ہے کہ
مسلم لیگ کو لوٹوں کو قبول کرنے کا نقصان ہوا ہے انہوں نے اپنے اصل وفادار ساتھیوں
کی بجائے وفاداریاں تبدیل کرنے والوں کو ترجیح دی تو اس پر نتائج بیدار عوامی شعور کی طرف اشارہ دے رہے ہیں ۔
اگر میں یہ کہوں کہ تحریک انصاف نے پاکستان کی
تمام خود مختار اور نیم خود مختار جماعتوں کو اکیلے شکست دے دی ہے تو اس میں بھی
مبالغہ آرائی نہیں ہوگی ۔ گو پیپلزپارٹی کے علاوہ دوسری جماعتوں نے انتخابی مہم
میں نمایاں ساتھ نہیں دیا مگر نظریاتی طور پر عوام ان کی ہمدردیوں کو سمجھتی تھی ۔
اس سارے عمل میں جو بات جان کر مجھے خوشی ہوئی
وہ یہ ہے کہ عوام میں شعور آگیا ہے اور وہ
واضح بیانیے کی حمائت میں کھڑے ہیں ۔ عمراں خان کے دبنگ بیانیے کو انہوں نے قبول
کیا ہے اور اس سے عمران خان کو بھی سبق حاصل کرنا ہوگا اور اب جمہوریت کو خالص طور
پر لے کر چلنا ہوگا وگرنہ مفاہمتی سیاست کا حال سب کے سامنے ہی ہے
نواز شریف اپنی کارکردگی اور "ووٹ کو عزت
دو" کے بیانیے پر عوام کی ہمدردیاں رکھتے تھے اور عوام ان کے ساتھ تھی ۔ ان
کی اپنی جماعت کے ساتھیوں کو بھی اس بات کا احساس تھا کہ ووٹ صرف نواز شریف کا ہے
۔ اب نواز شریف کو بھی اپنی پالیسی پر غور کرنا ہوگا اور جماعت کی رہتی سہتی ساکھ
کو بچانے کے لئے اپنی غلطیوں کو مان کر اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرنا ہوگی ۔
انتخابات پر مہنگائی ، بے روزگاری اور غربت کے
بڑھنے کے اثرات سے بھی انکار ممکن نہیں ۔ پی ڈی ایم کی جماعتوں کے پاس ایک مہنگائی
کا ہی نعرہ تھا کہ وہ عوام کی مہنگائی کی وجہ سے پریشان ہیں اور حکومت میں آنے کے
بعد اس پر قابو نہ پانے کو بحرحال عوام میں ناکامی ہی سمجھا جارہا ہے ۔ خالی پیٹ فقط
تسلیوں سے نہیں بھرتے اور بھوک سے بلکتے بچوں کی تکلیف کو دلاسوں سے دور نہیں کیا
جاسکتا ۔
عوام کو ریلیف چاہیے اور اگر کوئی اس کا حل نہیں
رکھتا تو اس کو معزرت کر لینا چاہیے تھی اور اگر سخت فیصلوں کو لینا ہی تھا تو پھر
سب کے لئے برابر ہونے چاہیں تھے ۔ بہرحال اب ان کو تسلیم کرنا ہوگا کہ عوام نے ان
کو ریجیکٹ کیا ہے اور وہ ان کی پالیسوں کے ساتھ نہیں کھڑے ۔
جمہوریت کا یہ تقاضہ ہے کہ تحریک انصاف کے
مینڈیٹ کو تسلیم کیا جائے ۔ دلیرانہ فیصلوں سے ہی جمہوریت مضبوط ہوتی ہے ۔ اور اب
پی ڈی ایم کی حکومت کے پاس کوئی جواز نہیں کہ وہ حکومت چلائیں اب ان کو تحریک
انصاف کے مطالبات کو سنجیدگی سے لینا ہوگا اور ان کے مطالبات پر اپنے خدشات اور
تحفظات کو ان سے شئیر کرکے کسی باہمی فیصلے پر پہنچنا ہوگا تاکہ عوام اور ملک کی
معاشی صورتحال کو بھی سنبھالا جاسکے اور عوامی رائے کو بھی عزت دی جا سکے ۔
پنجا ب
میں فوری طور پر حکومت تحریک انصاف کے نامزد امیدوار کو دے دینی چاہیے اور تحریک
انصاف کو بھی اس بات کا احساس ہوگا اور میں نہیں سمجھتا کہ ان حالات میں کوئی بھی
حکومت کو پھولوں کی سیج سمجھ کر تسلیم کرنے کے لئے تیار ہوگا ۔ اب حکومت کرنا
انتہائی مشکل ٹاسک بن چکا ہے ۔
مرکز میں اگر پی ڈی ایم چاہے تو حکومت رکھ سکتی
مگر تحریک انصاف کے تعاون کے بغیر اب صوبوں کی مخالفت ہونے کے بعد سیاسی کشمکش کے
ماحول میں حکومت کرنا آسان نہیں ہوگا ۔
یہی میں کہا کرتا تھا کہ جب عوام میں شعور آجائے
گا تو لوگ حکومت کرنے سے بھاگیں گے ۔ اب مسلم لیگ والے ظاہراً شکست سے شرمندگی تو
محسوس کررہے ہونگے مگر سخت ذمہ داریوں سے بھی تو سکھ کا سانس ملا ہوگا ۔ موجودہ
انتہائی مشکل معاشی صوتحال میں حکومت کو سنبھالنا کوئی آسان کام نہیں ۔
تحریک انصاف کو بھی عوامی طاقت کو تسلیم کرتے
ہوئے اب اس پرڈٹ کر کھڑا ہوجانا چاہیے اور
یوٹرن کی بجائے اب مستقل مزاجی کے ساتھ عوامی مسائل کی طرف توجہ دینی چاہیے
۔ جو کئی دنوں سے وہ انکشافات اور اعترافات کرتے آرہے تھے ان پر بھی اب جمہوری
فیصلوں کے ساتھ کاربند ہونا ہوگا ۔
اب موجودہ صورتحال کو دیکھ کر میرا نہیں خیال کہ
پی ڈی ایم کے علاوہ کوئی حکومت سنبھالنے اور چلانے کی حامی بھرے ۔ وہ چونکہ سخت
فیصلے کرکے عوامی غیض و غضب کو اپنے سر لے چکے ہیں لہذا ان کی اب یہ مجبوری تھی کہ
ان کو کچھ وقت ملتا اور وہ عوام کی داد رسی کرکے اپنی ساکھ کو بہتر بنا سکتے ۔
لیکں تحریک انصاف تو جیتنے کے باوجود بھی حکومت کرنے کو شائد ترجیح نہ ہی دے ۔
کیونکہ وہ حکومت جانے سے فائدے میں رہ گئے ہیں اور عوامی غصہ اب ان کی طرف سے مڑ
کر پی ڈی ایم کی طرف چلا گیا ہے اور اگر اب دوبارہ وہ حکومت سنبھالتے ہیں تو پھر
دوبارہ سے ان کو عوامی غیض و غضب بھی اپنے سر لینا پڑے گا ۔
بہرحال اب دیکھتے ہیں کل تحریک انصاف کی کور
کمیٹی کا اجلاس ہے ، وہ کیا فیصلے کرتے ہیں ۔ لیکن مجھے تحریک انصاف کے مرکزی
قائدین کے چہروں پر کوئی خاص خوشی نظر نہیں آئی کیونکہ حقیت پسند سیاستدان آنے والے وقت کی طرف دیکھتا ہے کہ حالات کو
سنبھالنا کیسے ہے ؟ حکومت اب ایک ایسا کمبل بن چکی ہے جس سے سیاستدان تو جان
چھڑوانا چاہتے ہین مگر یہ چھوڑتا نہیں ہے ۔
بحرحال تحریک انصاف کو جیت مبارک ہو اور ہم توقع
کرتے ہیں کہ اب وہ ماضی کے اپنے رویوں پر نظر ثانی کریں گے اور آئین ، جمہوریت اور
رول آف لاء کی ، حکومت میں ہوئے تو اور اگر اپوزیشن میں ہوئے تو ، بالادستی لے لئے
مل جل کر کام کریں گے ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں