سوشل میڈیا ویسے تو دور جدید کے رابطوں اور معلومات کو
پہنچانے کا ایک بہت ہی موثر زریعہ ہے مگر اس کی افادیت میں اس کو استمال کرنے والے
کی قابلیت ، اہلیت اور سوچ کا بھی بہت تعلق ہے ۔ اور اس کے زریعے سے دنیا کی سیاست
میں بھی ایک بھونچال آیا ہوا ہے جس کی ایک مثال عالمی سطح پر عرب سپرنگ اور ملکی
سطح پر موجودہ سیاسی عدم استحکام کی صورت میں آپ کے سامنے ہے ۔
اس میڈیا نے جہاں مثبت تبدیلیوں میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔
جس میں آزادی اظہار رائے کے استعمال میں اس کا بہت ہی اہم کردار ہے وہاں دنیا میں بدامنی اور تخریب کاری کرنے والوں
کو بھی مضبوط کیا ہے ۔ جہاں بلین ڈالرز خرچ کرکے تخریب کاری کے زریعے سے لوگ تیار
کرکے ان سے کام لیا جاتا تھا وہاں اب اسی قوم کے بے وقوفوں کو محض میڈیا پزیرائی
کے زریعے سے ہیرو بنا کر انتشار ، جارحیت اور تخریب کاری کا مقصد گھر بیٹھے پورا
کروا لیا جاتا ہے ۔
جس کا مشاہدہ آپ سوشل میڈیا پر ٹرینڈز سے لگا سکتے ہیں کہ
ان میں سچائی کتنی ہے ، اس کا ٹارگٹ کون ہیں ، یہ کہاں سے چلائے جارہے ہیں اور پھر
ان کی پزیرائی کیسے سیکنڈز میں آسمان کو چھونے لگتی ہے ۔ اس معاملے کا تعلق سوچنے
، غور کرنے اور پھر اس کے مقاصد کو سمجھ کر اس سے نمٹنے سے ہے ۔
اس طرح یہ اس وقت سرد جنگوں کے ایک ہتھیار کے طور پر
استعمال ہورہا ہے ۔ اور بڑی خاموشی سے اپنے ہدف کو پورا کرنے میں کوشاں ہے مگر اس
کے سیاسی استعمال نے بھی حکومتوں کے لئے ایک چیلنج کی صورت اختیار کرلی ہے جس کے
نقصان سے واقف ہونے کے باوجود حکومتیں اس کو قابو کرنے میں ناکام ہیں کیونکہ اس کا
کنٹرول باہر سے ہوتا ہے اور حکومتوں کی پہنچ سے باہر ہے ۔
جہاں تک آزادی اظہار رائے اور معلومات تک رسائی کا تعلق ہے
اس نے واقعی بہت قابل تعریف کردار ادا کیا ہے مگر دوسری طرف غلط معلومات کے زریعے
سے جو جھوٹ پر مبنی پراپیگنڈا کیا گیا ہے اس کےنقصانات فوائد سے کہیں بڑھ کر ہیں ۔
اس کی مثال یوں ہی لے لیجئے کہ گنجے کو اللہ ناخن نہ دے وہ اپنا ہی سر زخمی کر
بیٹھتا ہے ۔ بلکل اس طرح ہمارے نتائج سے لاعلم اور نابلد جاہلانہ سوچ اور ٹکوں کے
لالچ نے ایسوں ایسوں کو پزیرائی اورمقبولیت کی بلندیوں تک پہنچا دیا ہے کہ اب وہ
اپنے آپ کو سوشل میڈیا کی دنیا کا لارڈ سمجھ کر انت اٹھا رہے ہیں ۔
اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اس سے متاثرین میں ان اداروں
کے سربراہان اور ممبران بھی شامل ہوگئے ہیں جن کے کام پر اس کےمنفی اثرات پڑ رہے ہیں اور متاثر قوم و ملک ہورہے
ہیں ۔ اور اس کی بنیاد کوئی مفروضہ نہیں بلکہ ان کے اپنے بیانات ، تبصروں اور
تاثرات سے چھلکتا ہے ۔ اور انہوں نے اس کا برملا اظہار بھی کیا ہے ۔ جیسا کہ ججز
نے خود اس کی بنیاد پر سوو موٹو ایکشن لئے ہیں
تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی سوچ اور کام بھی سوشل میڈیا کےاثرات سے آزاد
نہیں رہا جو کہ صرف نظام انصاف ہی نہیں بلکہ ملکی انتظام و انتصرام پر بھی پڑ رہا
ہے ۔ جس کا اب سیاستدانوں کی بے بسیوں میں بھی اظہار ابھرنا شروع ہوگیا ہے ۔
سوشل میڈیا کے
استعمال پر پابندی تو جیسا کہ میں پہلے
بھی کہا ہے ممکن نہیں لیکن اس سے پہنچنے
والے نقصان کے سد باب کے لئے حکمت عمل سے
کام لے کر اس کے چیلنجز کا مقابلہ ضرور کیا جاسکتا ہے ۔ اس کی تباہیوں سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے
کہ اپنے انسانی وسائل کو ایسٹ سمجھا جائے
اور اسی میڈیا کے زریعے سے ان کے اندر ہنر کو سیکھنے کا شوق پیدا کیا جائے اور ان
کو تیار کرکے ان کو دینا کے وسائل کے ساتھ روشناس اور رسائی کو ممکن بنایا جائے تاکہ
وہ اس کے استعمال سے اپنی اور ملک کی معاشی حالت کو بہتر بنانے میں کردار ادا کریں
اور اس طرح نہ صرف ان کی سوچ بدلے گی بلکہ
اس سے ان کے فصول وقت جس کو وہ منفی سرگرمیوں میں استعمال کررہے ہیں کا بھی
استعمال مثبت سمت میں ہوکر قوم و ملک کی توانائی ، وقت اور صلاحیتوں کو بچانے میں
مدد ملے گی
مزید عوام کے اندر شعور کو اجاگر کرنے کے لئے سوش میڈیا کے
زریعے سے ایسے پروگرام ترتیب دیئے جانے
چاہیں جس سے ان کے اندر اچھے برے، سچ جھوٹ اورفائدے نقصان کو سمجھنے اور سوشل
میڈیا کے استعمال سے پروپیگنڈا کرنے والے
کے مقاصد اور عزائم کو سمجھنے کی اہلیت
اور قابلیت کو پیدا کیا جاسکے اور ان کو
اس قابل بھی بنایا جائے کہ وہ اس کا ڈٹ کر مقابلہ کریں اور اس کو کس طرح سے شکست
دینی ہے کے طریقہ کار کو بھی عام کیا جائے ۔
حکومت اس کے لئے قوانیں بنا کر اس کی عملداری کو یقینی
بنائے اور عوام کو یہ سہوت اور معلومات ہوں کہ انہوں نے اس طرح کی قوم و ملک کے
خلاف پروپیگنڈا والے مواد کو کیسے حکومت
کو رپورٹ کرنا ہے اور کیسے میڈیا کپنی کو
۔ ساتھ ہی شرپسند عناصر کے خلاف سخت قانونی کاروائی کرکے دوسروں کے لئے باز رہنے کے لئے مثال بھی بنانا
پڑے گا مگر اس میں غیر جانبداری ، شفافیت ور ملکی سلامتی و فائدہ پیش نظر ہونا
چاہیے نہ کہ انتقامی حسد کی کوئی صورت ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں