سیاست کی بدگمانیاں اور انصاف کی بے اعتنائیاں

جیف جسٹس صاحب نے فل کورٹ کے مطالبے کومسترد کردیا ہے جو سیاستدانوں پر بھاری گزر رہا ہے ۔ شکر نہیں کرتے کہ نظام انصاف اتنی سرعت کے ساتھ کام کر رہا ہے ۔ نہ دن دیکھتا ہے نہ رات ، نہ آگے دیکھتا ہے نہ پیچھے ۔ چار پانچ ججز قائد کے فرمان پرعمل کرتے ہوئے کام کر کر کے تھک چکے ہیں سارے کا سارا بوجھ اپنے اوپر لیا ہوا ہے اور اوپر سے باتیں بھی سننی پڑتی ہیں ۔ انہوں نے تھوڑا سا سوشل میڈیا دیکھنے کا اشارہ کیا دے دیا ہے اب عوام نے ٹرینڈ چلانے شروع کر دیے ہیں ۔ اب جج صاحب کا حوصلہ دیکھئے کہ انہوں نے پھر بھی محسوس نہیں کیا اور اپنی انصاف کی ذمہ داریاں نبھانے میں مصروف عمل ہیں ۔ باقی ججز چھٹیاں منا رہے ہیں اور انہوں نے ملک و نظام انصاف کو مونڈھا دیا ہوا ہے ۔

بات تو سیاستدانوں کی ہے کہ وہ ساری عمر گزر گئی ہے آئین بناتے ہوئے کہ جمہوریت سیدھی ہو جائے وہ تو ان سے ہو نہیں پائی ۔ ایک طرف سے گڑھا نکالتے ہیں تو دوسری طرف پڑ جاتا ہے ۔ وہ آج تک کوئی ایسا قانون ہی نہیں بنا سکے جو واضح ہو یا سپریم کورٹ کو اس کی سمجھ آجائے ۔ خواہ مخواہ کا ججوں کو بھی پریشان کیا ہوا ہے ۔ وہ کسی ایک نقطے پر بڑی غور و فکر کرکے ایک فیصلہ دے چکتے ہیں تو نیا مسئلہ کھڑا ہوجاتا ہے ۔ ان کو پھر سے غور و فکر کرنا پڑجاتا ہے ۔ ان کو سمجھ ہی نئی آتی کہ اب اس کا کیا کریں ۔ اگر پہلے والے کو بحال رکھتے ہیں تو مسئلہ اوراگر نئی تشریح کرتے ہیں تو مسئلہ ۔ اب وہ جج ہیں کوئی جرنیل یا سیاستدان تو نہیں کہ یو ٹرن لیتے پھریں ۔ اوپر سے فل کورٹ کا مطالبہ ، حد ہوگئی یار ۔

تو کیا یہ ممکن تھا کہ اپنے کئے ہوئے فیصلوں کو پوری کی پوری عدلیہ کےسامنے رکھ دیتے اور ان سے اس پر تبصرے سنتے رہتے اور وہ بھی آمنے سامنے ، انصاف کے سارے حساب برابر نہ ہوجاتے ۔ کیا انہوں نے یہ عہدہ اس دن کے لئے حاصل کیا تھا ۔ کوئی ان پر اعتماد کرے یا نہ کرے ان کو تو اپنے اوپر اعتماد ہے ناں ۔ اوروہ جو کررہے ہیں اپنے تئیں ٹھیک ہی تو کررہے ہیں ۔ انصاف کا یہ اصول اور تقاضہ بھی ہے کہ عدالتوں میں فیصلے کسی کی خوشی یا ناراضگی کے لئے نہیں کئے جاتے ۔ اگر اختیارات کو استعمال ہی نہ کرنا ہو تو پھر ان کا فائدہ ہی کیا؟

پہلے تھوڑے ظلم ڈھائے جارہے ہیں ۔ کوئی ہم خیال کہتا ہے تو کوئی بینچ فکسر کے طعنے دیتا ہے ۔ اب یہ ان کا صوابدیدی اختیار ہے اور خیال کا ایک ہونا تو اتفاق کی بات ہے جو کوئی حسن اتفاق نہیں بلکہ انصافی اتفاق ہے جس کی عوام  اور سیاستدان دعائیں اور دوائیں کررہے ہیں ۔

اب فیصلہ تو فیصلہ ہی ہوتا ہے اس کو ایک کلی جز کے طور پر لیا جاتا ہے ۔ یہ کیا بات ہوئی کہ لوگ اس کو سیاق و سباق میں دیکھنا شروع کر دیتے ہیں ۔ قاضی فائز عیسیٰ اور شوکت عزیز صدیقی نے نظام انصاف کی مخبری کیا کردی سب کے سب عدالتوں کے پیچھے ہی پڑ گئے ہیں ۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے تو آج بھی بنچ کی تعیتاتی میں جلد بازی پر سوالیہ نشان اٹھا رہے ہیں مگر ان کی سنتا کون ہے وہ تو پہلے بھی تین خط اپنے برادر ہم منصب کو لکھ چکے ہیں جو چند قدموں کے فاصلے پرمگر سوچوں میں شائد کوسوں دوری پر ہوں ۔

اب یہ جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور ہے اس میں پرانی دقیانوسی والی باتیں گئیں ۔ کہ چرچ نے کیا کہا تھا یا خلفاء راشدین نے کہا ہے کہ ریاست کفر کے ساتھ تو قائم رہ سکتی ہے مگر ناانصافی کے ساتھ نہیں ۔ کوئی وٹس ایپ گروپس کا الزام لگاتا ہے تو کوئی ٹیلی فونک رابطوں کے ۔ کیا انصااف کی غرض سے مشوروں پر بھی چرچ نے یا خلفاء راشدین نے کوئی قدغن لگایا تھا ۔ یہ تو اسلام کے اصولوں کے عین مطابق ہے کہ آپس میں یا کسی بڑے تجربہ کار سے مشورہ کرلیا جائے ۔ پہلے عدالتیں تکنیکی مسائل کے لئے ماہرین کو عدالت آنے کی تکلیف دیتی تھیں اور اب سوشل میڈیا کے زریعے سے مشورے کر لئے جاتے ہیں ۔ یہ بھی کوئی اعتراض والی بات ہوئی ۔

بہرحال اللہ کے رسول  کے فرمان کو تو اہمیت دینی ہی ہوگی ۔ جس میں انہوں نے ججز کو تین درجوں میں رکھا ہے ایک وہ جو اہل نہیں ہوتے اور منصب انصاف پر بیٹھ جاتے ہیں اور دوسرے وہ جو اہلیت تو رکھتے ہیں مگر انصاف کرنے میں غفلت کرتے ہیں اور تیسرے وہ جو اہلیت بھی رکھتے ہیں اور انصاف  بھی کرتے ہیں ۔ ایک اچھا گماں رکھتے ہوئے اگر دیکھیں تو ہماری اعلیٰ عدلیہ بھی کچھ اس ایک تہائی تقسیم میں تو دکھائی دے رہی ہے ۔ اب کون کس درجے کا ہے اور اس کے بارے کیا وعید ہے وہ تعیناتیوں میں مدد اور عمل کرنے والوں کو زیادہ اچھا معلوم ہوگا ہر کوئی اپنے اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھے ۔  

اب سیاستدان عدالتی کاروائی کا بائیکاٹ کرنے لگے ہیں ۔ کبھی کسی سائل و مدعی نے یا مسئول علیہ اور مدعاعلیہ نہ بھی عدالتوں کے بائیکاٹ کئے ہیں اور وہ بھی حکومت میں شامل جماعتیں ۔ حیرت کی بات ہے ۔ کیا اس سے نظام انصاف اپنا فرض نبھانا چھوڑ دے گا ۔ کیا ان کوماضی بھول گیا ہے جب یوسف رضا گیلانی کو گھر بیھج دیا گیا تھا اور نواز شریف کو نا اہل کردیا گیا تھا ۔ وہ نظام عدل کو پرانی تاریخ دہرانے پر مجبور نہ کریں پہلے ہی عدالتوں میں بہت زیادہ مقدمات زیر التوا پڑے ہیں ۔ بس من و عن بات کو تسلیم کرتے جائیں ۔ جس کا کام اسی کو ساجھے اگر ان کو انصاف کا اتنا ہی پتا ہے تو پھر عدالتوں میں آتے ہی کیوں ہیں ۔ اپنے مسائل پارلیمان میں ہی حل کیوں نہیں کرلیتے ؟

اب انکو رشتہ داریاں اور تعلقات بھی انصاف کی راہ میں رکاوٹ لگنے لگے ہیں تو جب وہ انہی کی بنیاد پر ججوں کو تعنات کیا کرتے تھے اس وقت نظام انصاف کا خیال نہیں تھا اب اسے مکافات عمل ہی سمجھ کر برداشت کیجئے ۔ کل اگر فیصلہ بائیکاٹ والوں کے حق میں آگیا تو کیا اس کو ماننے سے انکار کردیں گے ۔ مطالبات اور اعتراضات بھی ٹھوس بنیادوں پر ہونے چاہیں اور احتجاج کے پیمانے اور انداز بھی مناسب اور جائز ہی ہونے چاہیں ۔

اگر فل بنچ کی درخواست خارج ہوئی ہے تو اس کے خلاف رولز کے مطابق ٹھوس شواہد کے ساتھ اپیل کی قانونی چارہ جوئی بنتی ہے وہ کرنی چاہیے نہ کی بائیکاٹ۔ پہلے بھی کچھ سیاستدان رات کو عدالت کھلنے پر اعتراض کر رہے تھے اور جب خود پر مشکل آئی تو رات کو ہی عدالت پہنچ گئے تھے اور کچھ تو دیواریں بھی پھیلانگتے رہے ۔

کوئی مانے یا نہ مانے انصاف ڈنکے کی چوٹ پر بولے گا اور اس پرآمین کہنے والوں کی بھی کمی نہیں ہوگی ۔ ویسےبھی نااہلوں کی کون سنتا ہے اگر بات سننی ہی ہو تو صادق و امین لوگوں کی سننی چاہیے جو اس کی اہلیت بھی رکھتے ہوں ۔

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں