قومی خدمت کے جذبوں اور ذمہ داریوں کی پاسداری میں ہی
ترقی کا راز پوشیدہ ہے مگر اس کے لئےریاست
اور عوام کے درمیاں ایک معاہدہ طے ہوتا ہے کہ ریاستی امور کو اس کے مطابق اور تحت سرانجام دیں گے جسے ریاست کا آئین کا جاتا ہے ۔
مگر پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ
ہماری قومی نفسیات میں ماورائے آئین زبردستی خدمت کا جذبہ زیادہ حاوی
رہا ہے جس کی بہت ساری مثالیں موجود ہیں ۔
ہر کوئی چاہتا ہے کہ اسے خدمت کا موقعہ
ملے اور وہ قوم کی خدمت کرے ۔ اسے اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ وہ اس کی اہلیت یا قابلیت رکھتا بھی ہے یا نہیں ۔ وہ بضد ہے کہ
اسے خدمت کا موقعہ ضرور دیا جائے ۔ بلکہ
دھونس دھاندلی سے بھی یہ حق حاصل کرنا پڑے تو دریغ نہیں کرتے ۔قوم بھی اس معاملے میں بہت سخی واقع ہوئی ہے
جس نے بھی اپنی خدمات کی پیشکش کی ہے اس کی خواہش کو کبھی رد نہیں کیا ۔
اس میں ہمارے اداروں کا بھی کافی عمل رہا ہے جس کا سلسلہ جنرل
ایوب خان سے شروع ہوتا ہے ۔ انہوں نے اپنے
اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے اپنے آپ کو
ملک کی خدمت کے لئے پیش کردیا ۔ وہ سمجھتے تھے کہ ان سے بڑا نہ کوئی محب وطن ہے
اور نہ ہی کوئی اس ملک کی خدمت کا جذبہ رکھتا ہے ۔ پھر جنرل ضیاءالحق نے بھی دعویٰ
کیا کہ وہ پاکستان کو صحیح اسلامی فلاحی ریاست بنانا چاہتے ہیں اور ان کے بغیر
کوئی یہ کام بخوبی سرانجام نہیں دے سکتا ۔
پھر مشرف کو یہ کھٹکا کہ ملک میں غداری کی ایک لہر چل پڑی ہے لہذا اس کو ختم کرنے
کی اشد ضرورت ہے اور قوم کو بدعنوانی سے چھٹکارہ بھی دلانا ہے لہذا وہ میدان میں
کود پڑے ۔
طاقت کی بنیاد پر حب الوطنی اور غداری کی تعریفیں لکھی جاتی
رہیں مگر تاریخ نے کبھی بھی ایسے اقدامات کو قبول نہیں کیا لیکن پھر بھی حب اوطنی اور
اس کی زبردستی خدمت کا جذبہ قائم و دائم ہے ۔ عوام اتنی بھولی ہے دعویٰ کرنے والے
کے کردار کو نہیں دیکھتے کہ وہ جو کہہ رہا ہے کیا اس کا اپنا اس پر عمل بھی ہے ۔
کیا وہ خود اسلام کی تعلیمات پر عمل کررہا ہے ۔ کوئی بھی اس پر غور نہیں کرے گا
اور جب وقت گزر جائے گا تو پھر پچھتاتے پھریں گے ۔ پھر اتنے میں کوئی نیا دعویدار
سامنے آجائے گا کہ وہ اب ملک و قوم کی خدمت کرنا چاہتا ہے ۔ اس طرح یہ سلسلہ جاری وساری ہے ۔ ایسے اقدامات کو عوام اور عدلیہ کی
حمائت بھی حاصل رہی ہے جس کی وجہ سے اس
حماقت سے ہم جان نہیں چھڑوا پائے
آج کل بھی بہت سارے ایسے عوامی خدمت کے دعویدار ہیں جو
عوام کے جذبات سے کھیلنے کے لئے پوری طاقت سے میدان عمل میں اترے ہوئے ہیں بلکہ اس کے حصول کی
باری کے لئے جنگ و جدل پر اترے ہوئے ہیں ۔ عمران خان سمجھتے ہیں کہ باقی سب چور
ہیں اور وہ ہی اس ملک میں صادق و امین ہیں کیونکہ ان کو عدالت عالیہ کی سند بھی
حاصل ہے اور اس کے لئے انہوں نے ایک زبردست بیانیہ بھی بنایا ہوا ہے جس کو بقول
انکے عوامی پزیرائی بھی حاصل ہے ۔ اور دوسری طرف پاکستان کی تمام بڑی سیاسی
جماعتیں سمجھتی ہیں کہ عمران خان اس ملک کی معیشت اور سلامتی کے لئے سب سے بڑا
خطرہ ہے اور وہ ہر صورت ملک و قوم کو اس خطرہےسے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں ۔
اسی طرح جناب چیف جسٹس صاحب بھی پوری طرح سے پر اعتماد ہیں
کہ وہ اور ان کے تین چار ساتھی جو انصاف دے سکتے ہیں وہ شائد کوئی اور نہیں دے
سکتا اور اس طرح دوسرے سپریم کورٹ کے معاملات چاہے وہ بنچوں کی ترتیب ہو یا
ہائیکورٹ سے سپریم کورٹ میں جج کے طور پر تعیناتی ہو وہ چاہتے ہیں کہ ان کی مرضی
سے ہو ، وہ جسے چاہیں وہ ہی سب سے بہتر ہے ۔ اس ضمن میں کل جوڈیشل کونسل کا اجلاس
تھا اور اس میں انہوں نے پانچ ججوں کی ایک لسٹ پیش کی جن میں سے کوئی بھی اکثریتی ممبران کی منظوری حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا جو انکو ناگوار گزرا انہوں نے اپنی موجودگی میں کمیشن کا فیصلہ بھی
نہیں لکھوایا اور صرف یہ کہا کہ ایک امیدوار کی حد تک مسترد اور باقی چار کی حد تک
برخواست کیا جاتا ہے کہہ کر اٹھ گئے جبکہ
دوسرے ممبران کی طرف سے خصوصی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی طرف سے اپنے خط میں یہ لکھا گیا ہے کہ تمام امیدواران
کو کمیشن کی اکثریت کی طرف سے مسترد کر دیا گیا ہے ۔ اور اکثریت نے سنیارٹی کی بنیاد پر تیعناتی کے اصول کی حمائت
کی ہے جو وکلاء بار کی طرف سے دیرینہ مطالبہ رہا ہے اور اس بارے سپریم کورٹ کے
اپنے فیصلے بھی موجود ہیں ۔
مگر چیف جسٹس صاحب کے رویے سے لگتا ہے کہ وہ زبردستی انصاف
اور اس سے جڑے معاملات میں خدمت کرنا چاہتے ہیں اور ان کی سوچ دوسروں سے بہتر ہے ۔ حالانکہ ان کے اپنے رفقاء کے
ساتھ حا لیہ کئے گئے فیصلے سیاسی جماعتوں
اور وکلاء میں انتہائی تنقید کا نشانہ بنے ہوئے ہیں ۔ اور ان کے رویے سے نالاں
وکلاء اور بارز پارلیمان سے سپریم کورٹ کے
رولز میں فی الفور تبدیلی کرنے کے مطالبات
کررہے ہیں اور اس پر قرارداد بھی منظور کر
لی گئی ہے ۔ کابینہ نے اصلاحات کے لئے ایک کمیٹی بھی بنا دی ہے ۔
پنجاب کے چیف منسٹر کے الیکشن پر ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کے
خلاف کیس میں وکلاء اور تمام سیاسی جماعتوں نے پرزور مطالبہ کیا تھا کہ فل کورٹ
پنچ کے سامنے یہ معاملہ رکھا جائے تاکہ ایک متفقہ فیصلہ آئے مگر انہوں نے تمام مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے کیس جلدی سے
نمٹا دیا اور اس میں خود اپنے پہلے فیصلے پر جلدبازی میں غلطی کا بھی اعتراف کیا
ہے ۔ تمام سیاسی جماعتوں نے اس پر احتجاجاً کاروائی کا بائیکاٹ کر دیا تھا مگر اس
کے باوجود انہوں نے فیصلہ دے کر اس پر عمل
بھی کروا دیا ہے ۔ اب حکومت اس کے خلاف اپیل میں جانا چاہتی ہے اور وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ اس کے خلاف نظر ثانی
میں مختلف ججز کو بنچ کا حصہ بنایا جائے ۔
پہلے نظر ثانی کی اپیل میں پہلا فیصلہ کرنے والے ججز ہی سنتے ہیں ۔ لیکن اب حکومت ، تمام سیاسی جماعتوں اور وکلاء برادری کی طرف سے یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ رولز کو تبدیل کی
جائے اور نظر ثانی کا مختلف ججز کو اختیار دیا جائے ۔ اور اگر ایسا ہوجاتا ہے تو
پھر زیادہ تر قانونی ماہرین اور مبصرین کا خیال ہے کہ فیصلہ بدل جائے گا جس سے پرویز الہی کی حکومت پھر خطرے سے دو چار
ہوجائے گی ۔ اور یوں زبردستی خدمت کے نتائج ملک و قوم کو سیاسی انتشار کے منجھدار
میں جھونکے رکھیں گے ۔
خدمت او ر حب الوطنی کا جذبہ تو اچھی بات ہے مگر عہدوں کی حیثیت تو ذدمہ داریوں
کا نام ہے اور اختیارات سونپنے سے پہلے اس بات کا ہلف لیا جاتا ہے کہ
" میں خلوص نیت سے پاکستان کا حامی اور وفادار رہوں گا۔ میں اپنے
فرائض منصبی اور کارہائے منصبی ایمان داری،اپنی انتہائی صلاحیت وفاداری کے
ساتھ،اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور اور قانون اور قواعد کے مطابق اور ہمیشہ پاکستان کی خود
مختاری اور سالمیت،استحکام اور خوشحالی کی خاطر انجام دوں گا۔میں اسلامی نظریہ کو
برقرار رکھنے کے لئے کوشاں رہوں گا جو قیام پاکستان کی بنیاد ہے۔ میں اسلامی
جمہوریہ پاکستان کے دستور کو برقرار رکھوں گا اور اس کا تحفظ اور دفاع کروں
گا۔اللہ تعالیٰ میری مدد اور رہنمائی فرمائے "۔
اس کے علاوہ اپنے اپنے کام اور ذمہ
داریوں کا بھی
ذکر ہوتا ہے۔ ریاست کے اداروں کے عہدوں پر فائز حضرات سیاست سے دور رہنے کا بھی
حلف اٹھاتے ہیں ۔
لیکن اس کے باوجود تاریخ گواہ ہے کہ حلف توڑے
گئے ۔
تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زبردستی کی خدمت کے
پیچھے ذاتی مفادات کے مقاصد ہوتے ہیں جو ان عہدوں کے ساتھ لپٹے رہنے پر مجبور کئے
ہوتے ہیں وگرنہ اگر صرف ذمہ داریوں اور حلف کی پاسداری کا ہی احساس ہو تو بندہ
کبھی بھی ذمہ داریوں کا اضافی بوجھ اپنے اوپر نہیں ڈالتا ۔ اور جب مفادات سامنے
ہوں تو پھر ملک و قوم کے مفادات پیچھے رہ جاتے ہیں اور یوں ہر کوئی یہ کوشش کرتا
ہے کہ اس کا الو سیدھا ہوجائے ، ملک و قوم
کو اگر نقصان ہوتا ہے تو ہوتا رہے ۔
اگر ستر سالوں میں ایمانداری ، خلوص اور محنت کے ساتھ خدمت کا
جذبہ کارفرما ہوتا تو ملک کی آج یہ حالت نہ ہوتی ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں