آج کل پاکستانی سیاست میں برابری کی سطح کا
مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے ۔ پاکستان مسلم لیگ نواز شریف نے جب سے سپریم کورٹ کا
فیصلہ آیا ہے اب اس پر کھل کر بات کرنا شروع کردی ہے ۔ اور اپنے اس بیانیے پر تمام
اتحادی جماعتوں کو بھی ہم خیال بنا لیا ہے ۔ انہوں نے نہ صرف سپریم کورٹ کے فیصلے
پر احتجاج اور اس کی مزمت کی پالیسی اپنائی ہے بلکہ اپ الیکشن کمیشن سے بھی پر زور مطالبہ
کر رہے ہیں کہ فارن فنڈنگ کے کیس کا جلد فیصلہ کیا جائے وگرنہ وہ الیکشن کمیشن کے
سامنے دھرنا دیں گے ۔
مریم نواز کی آواز میں بہت وزن ہے وہ دبنگ انداز
میں بات کرتی ہیں انہوں نے جس قدر کھل کر سپریم کورٹ پر تنقید کی ہے شائد ہی اس کی
کوئی مثال ملتی ہو اور اس سے عوامی حلقوں اور خاص کر ان کی جماعت کے کارکنوں کو
ایک نیا ولولہ اور بیانیہ ملا ہے ۔ اس پر وکلاء برادری جو کئی مہینوں سے ججوں کی
تعیناتی میں سینیارٹی کی بنیاد پر عمل درآمد کے لئے کوششیں کر رہی تھی کو بھی ایک
نئی توانائی ملی ہے اور اب انکا یہ بیانیہ سیاسی جماعتوں کا بھی بیانیہ بن گیا ہے
۔
جس طرح نواز شریف کے ووٹ کو عزت دو کے بیانیے کو
گوجرانوالہ کے بعد ایک نئی لائن ملی تھی اور اس کی تائید میں سوشل میڈیا پر ایک
کمپین شروع ہوگئی تھی اور فوج کو اپنا رویہ بدلنا پڑا بلکل اسی طرح مریم کے بیانیے
کے بعد سپریم کورٹ کے متعلق انتظامی امور میں تحفظات ، مطالبات اور خدشات کو بھی
ایک نئی لائن مل گئی ہے اور اب ان پر کھل کر بات ہونی شروع ہوگئی ہے ۔ پہلے کسی
بھی بنچ پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے بڑے بڑے سنئیر وکلاء بھی جھجک محسوس
کرتے تھے اور اپنے موکل کو بھی مشورہ دیا کرتے تھے کہ اس طرح کی بات ان کے خلاف
جائے گی ۔ بلکہ اکثر ججز کے پوچھنے پر بھی وکلاء از راہ مروت عدالت پر پورا اعتماد
ہونے کا اظہار کیا کرتے تھے مگر باہر آکر اپنے خدشات کا اظہار کر لیا کرتے تھے ۔
کافی عرصے سے بنچوں کی تشکیل بارے باتیں ہو رہی
تھیں مگر کوئی بھی کسی بنچ کے سامنے یہ بات کہنے کی جسارت نہیں کر رہا تھا مگر ڈپٹی سیکرٹری
پنجاب اسمبلی کی رولنگ کے خلاف پیٹیشن میں وکلاء کے مطالبے کے مسترد کئے جانے پر
عدالتی بائیکاٹ کے بعد اب ایک نئی روایت جنم لے گی اور اب پنچز پر عدم اعتماد کا
کھل کر اظہار ہوا کرے گا ۔ اور اب ججز کو اگر اپنی ساکھ بچانی ہے تو اپنے فیصلوں
کے زریعے سے انصاف ہوتا ہوا دکھانا پڑے گا
اور اپنے فیصلوں میں غیر جانبداری اور شفافیت کے پہلو کو مزید اجاگر کرنا ہوگا
اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ پماری
عدالتوں کی یہ ثقافت عام ہے کہ سینیر اور جونیئر وکلاء کے ساتھ عدالت کا رویہ مختلف
ہوتا ہے ۔ اور عوام کی سطح تک اس تصور کا ذکر ملتا ہے ۔ اسی لئے لوگ کوشش کرتے ہیں
کہ سنئیر وکیل کو انگیج کیا جائے ۔ مگر اب ججز کو کافی حد تک محتاط رہنا ہوگا ۔
احترام کا رشتہ دونوں اطراف سے ہو تو تب ہی مضبوط ہوتا ہے ۔
کل جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کے بعد ایک نئی بحث چھڑ
گئی ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ ججز کو بھی
اس بات کا احساس ہوگیا ہے جس کا اظہار کھل کر سامنے آ رہا ہے ۔ جسٹس فائز عیسیٰ ان
انتظامی بد نظمیوں پر تین خط لکھ چکے تھے اور کل ایک اور خط لکھا ہے مگر آج تو
جسٹس طارق مسعود کا خط بھی سامنے آگیا ہے جس میں انہوں نے چیف جسٹس کے رویے کے غیر
جمہوری ہونے بارے اپنے محسوسات کا اظہار کیا ہے اور اس کے بعد چیف جسٹس کو اب
جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کی آڈیو ریکارڈنگ کو پبلک کرنے کی ہدایات بھی سننے میں آرہی
ہیں ۔ جو کہ ایک انتہائی مثبت سمت میں اٹھتا ہوا قدم ہے ۔ اس بارے جسٹس فائز عیسیٰ
اپنے خط میں مطالبہ بھی کرچکے ہیں کہ جوڈیشل کمیشن کے اجلاس لائیو سٹریم پر دکھائے
جانے چاہیں اور رولز میں اس بارے کوئی ممانعت بھی نہیں ہے ۔
ان کی اس بات کو کوئی وزن نہیں دیا جارہا تھا
مگر اب لگتا ہے یہ ضرورت بن جائے گی اور مجبوراً اجلاس کو آن ائیر کرنا پڑے گا ۔
میں نے تو پہلے بھی اس بات پر زور دیا تھا کہ کانسٹیٹیوشنل اپیلوں کے لئے ایک
مخصوص بنچ ہونا چاہیے جو سنئیر ججز پر مشتمل ہو اور اس کی تشکیل بھی جوڈیشل کمیشن
کرے یا اس بارے کوئی واضح رولز بنائے جائیں ۔ اور اب جو بحث چھڑ گئی ہے اس کے بعد
عدالت کی ساکھ کو بچانے کے لئے رولز کا بنایا جانا انتہائی ناگزیر ہوگیا ہے ۔
اگر اسی طرح عدالت کی کاروائی بھی لائیو دکھائی
جانے لگے تو عدالتی نظام کی بہت ساری کمزوریاں دور ہوجائیں گی ۔ اور اس کی مثال
دنیا کی عدالتوں میں موجود ہے ۔ بند کمروں کے فیصلوں اور عوام کے سامنے کئے گئے
فیصلوں میں بہت فرق ہوتا ہے ۔ عوام کے سامنے بات کرتے ہوئے کئی دفع سوچنا پڑتا ہے
اور اس پر لوگوں کے تبصرے اصلاح کے ایک پہلو کے طور پر کام کرتے ہیں ۔
جب سے سوشل میڈیا کا دور آیا ہے بہت سارے
سیاستدانوں اور مذہبی علماء کے رویے بدل گئے ہیں ۔ جن بھی علماء نے اپنے وڈیو چینلز
بنائے ہوئے ہیں اب وہ بیان تیاری کے بعد ریکارڈ کرواتے ہیں اور اس پر علمی دلائل
کے ساتھ تبصرے بھی ہوتے ہیں ۔ سوال اٹھائے جاتے ہیں اور اس طرح اپنی علمی ساکھ کو
بہتر رکھنے کے لئے کوئی بھی عالم کمزور روایات کو بیان کرنے سے جھجک محسوس کرتا ہے
۔
تو میں سمجھتا ہوں کہ اب مسلم لیگ نے جو برابری
کی سطح پر تمام سیاسی جماعتوں کو ڈیل کرنے کا مطالبہ کیا ہے اس پر اداروں کو غور
کرنا پڑے گا وگرنہ انہوں نے بھی جس طرح سے دباؤ بڑھانے کا سلسلہ شروع کردیا ہے اس
سے پہلے والا سلسلہ آگے بڑھانا مشکل ہوجائے گا ۔ جس طرح سے اب چیف جسٹس دفاعی
بیانات دینے پر مجبور ہوکر آڈیو ریکارڈنگ کو پبلک کرنے کی ہدایات دے رہے ہیں اسی
طرح ہر ادارے کو اب اپنی ساکھ کو بچانے کے لئے برابری کی بنیاد کا خیال رکھنا پڑے
گا ۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نے میثاق جمہوریت کے
وقت آپس میں ایک مثبت پیش رفت کے زریعے سے جمہوری عمل کو آگے بڑھانے کے لئے جو قدم
اٹھایا تھا اس کے بہت ہی اچھے نتائج سامنے آئے تھے ۔ انہیں کی بدولت اب تیسری
اسمبلی اپنی مدت پوری کرنے جارہی ہے ۔ دھاندلی کے الزامات اور خدشات ضرور سامنے
آتے رہے مگر سیاسی کشیدگی میں کافی حد تک کمی آگئی تھی مگر اب تحریک انصاف کے
میدان میں اترنے کے بعد ان اصولوں کو پس پشت ڈالا گیا ہے جس پر دوسری جماعتیں
مصلحت سے کام لیتی رہی ہیں مگر اب شائد انہوں نے محسوس کرنا شروع کر دیا ہے کہ ان
کے رویے کو درست کرنے اور سیاست کے اصولوں کو رواج دینے کے لئے ایک دفعہ انہی کی
زبان میں جواب دینا ہوگا تب جاکر وہ سیاست کے اصولوں کی طرف متوجہ ہونگے اور
اداروں کو بھی یہ باور کرایا جئے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو برابری کی سطح پر ڈیل
کرنا ہوگا ۔
امید ہے کہ اب اس مطالبے کے سامنے آنے کے بعد
سیاسی کشیدگی میں کمی آئے گی اور سیاستدانوں کو بھی محتاط انداز اپنا نا پڑے گا ۔
اگر وہ اداروں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں تو پھر اس کے نتیجے کے طور پر اپنے
رویوں اور اعمال کی پوچھ پکڑ اور غلط الزامات کی صورت میں قانونی کاروائی کا سامنا
بھی تو کرنا پڑے گا ۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ جب ایک غلط الزامات پر ہرجانے کے
فیصلے آنا شروع ہوگئے تو خواہ مخواہ کی دوسروں پر الزامات کی سیاست کی ثقافت سے
جان چھوٹ جائے گی اور عوام ، سیاستدانوں اور اداروں کے سربراہان کی بھی اس طوفان
بدتمیزی سے جان چھوٹ جائے گی اور مثبت سیاست کی ثقافت کو پزیرائی ملے گی ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں